نگراں وزیراعظم انوار الحق کے پرنٹ میڈیا کے حوالے سے حالیہ بیان پر صحافتی تنظیموں کی جانب سےشدید حیرت اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔اے پی این ایس سی نے کہا کہ اگر نگراں وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ اخبارات کا کاروباری ماڈل ناقص ہے تو اخبارات اس نقص کو ٹھیک کرنے کے لیے حکومت کو دی گئی تخفیف شدہ نرخوں کی رعایت واپس لینے کیلئے تیار ہیں،جبکہ سی پی این ای نے کہا کہ میڈیا نے آزادی صحافت کسی سے بھیک میں نہیں لی بلکہ اس کے پیچھے طویل جدوجہداور جانی و مالی قربانیاں شامل ہیں، آل پاکستان نیوزپیپرزسوسائٹی نے ایک بیان میں نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے پرنٹ میڈیا کے خلاف بیان پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے پرنٹ میڈیا کے کاروباری ماڈل کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اخبارات کو حکومت کی مالی امداد پر انحصار نہیں کرنا چاہئے۔اے پی این ایس نے نگراں وزیراعظم کے اس بیان پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔نگراںوزیراعظم نے اسلام آباد میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزارت اطلاعات کی جانب سے سرکاری اشتہارات کے نرخوں میں اضافے کی زیرالتواء سمری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ پرنٹ میڈیا حکومت کی حکومت کی مالی اعانت پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے ناقص کاروباری طریقہ کار کو تبدیل کرے اور حکومتی امداد کی بجائے اپنے وسائل سے آمدنی کے ذرائع پیدا کرے۔اس بیان کے مندرجات سے محسوس ہوتا ہے کہ سمری کے بارے میں وزیراعظم کی معلومات درست نہیں ہیں، کیونکہ پرنٹ میڈیا نے حکومت سے کسی گرانٹ یا سبسڈی کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کے برخلاف اخبارات رعایتی نرخوں پر سرکاری اشتہارات شائع کرتے ہیں جو ان کے کمرشل نرخوں کے مقابلے میں محض ایک چوتھائی کے برابر ہے۔اے پی این ایس نے وضاحت کی کہ سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے طویل عرصے سے زیرالتواء اشتہاری نرخوں میں اضافے کا اعلان کیا تھا،تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے سمری جاری نہیں ہوسکی تھی،یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک طویل عرصے سے واجب الاداتقریباََ 2 ارب روپے کے بلوں کی ادائیگی نہیں کی ہے،اگر نگراں وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ اخبارات کا کاروباری ماڈل ناقص ہے تو اخبارات اس نقص کو ٹھیک کرنے کے لیے حکومت کو دی گئی تخفیف شدہ نرخوں کی رعایت واپس لینے کیلئے تیار ہیں۔