پرنٹ میڈیا,مسائل اور حقائق

تحریر: سلیم فاروقی

گذشتہ کچھ عرصہ سے پاکستانی میڈیا کی ایک نامور شخصیت عابد عبداللہ صاحب پاکستانی میڈیا کی موجودہ زبوں حالی اور اس کی بحالی کی ضروریات پر پوسٹ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے آج بھی ایک پوسٹ شائع کی۔ میں نے بھی کچھ عرصہ ان کے ماتحت کی حیثیت سے کام کیا ہے، اور تھوڑا بہت اخباری دنیا کے حقائق سے واقف بھی ہوں۔ اپنے مشاہدات اور عابد عبداللہ صاحب کے خیالات کے بعد جو کچھ میرے ذہن میں آیا میں نے بطور تبصرہ ان کی پوسٹ پر تحریر کردیا۔ بعد میں خیال آیا کہ اس تبصرے کو ایک جداگانہ پوسٹ کی حیثیت سے بھی شائع کروں تاکہ بحالی کی اس مہم میں مرض کی درست تشخیص میں اپنا کردار بھی ادا کرسکوں۔ شائد کہ کوئی اس طوطی کی آواز بھی سن لے۔ تحریر اگرچہ کچھ طویل محسوس ہوگی لیکن صحافتی دنیا کے لیے مختصر ہی ہو گی ۔۔ لیجیے ملاحظہ کیجیے میرے خیالات۔(سلیم فاروقی)۔۔

آپ جیسے اہم میڈیا پرسن کی جانب سے یہ ایک اچھا فیڈ بیک ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ پرنٹ میڈیا کے موجودہ مسائل کی اہم وجہ میں اس کے مالکان کی دانستہ یا نادانستہ کوتاہی کا دخل زیادہ ہے۔ اب جب کہ میڈیا ایک تحریک سے زیادہ انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور مالکان سمیت تمام ہی متعلقہ افراد اس بات کا برملا اقرار بھی کرتے ہیں تو اس سے انڈسٹری ازم کے فوائد تو حاصل کیے گئے لیکن وہ وسائل کبھی فراہم نہیں کیے گئے جو کسی بھی صنعت کی بنیادی ضرورت ہوا کرتے ہیں۔

.کسی بھی صنعت کی کامیابی کا دارومدار دو بنیادی چیزوں پر ہوا کرتا ہے۔ اول اس کی پروڈکشن میں استعمال کے لیے حتی المقدور دستیاب بہترین خام مال استعمال کرکے ایک قابل بھروسہ برانڈ بنانا اور پھر اس کی پیداواری لاگت کے ساتھ مارکٹ میں اس کی طلب اور اس کے صارف کی قوت خرید کا اندازہ لگا کر مناسب قیمت فروخت طے کرنا۔ بد قسمتی سے یہ اہم فیکٹر انڈسٹری کے مالکان اور انتظامیہ نے کبھی مدنظر رکھا ہی نہیں۔ اور اسی کا بھل آج کاٹنا پڑ رہا ہے۔

.میں اگر مختصراً اپنی بات واضح کرنا چاہوں تو سب سے پہلے اسی غلط خیال کو سامنے لانا چاہوں گا کہ جب بھی میڈیا اور خصوصاً پرنٹ میڈیا میں پیداواری لاگت کا تذکرہ کیا گیا ہمیشہ کاغذ کی قیمت، روشنائی کی قیمت، بجلی کی قیمت، ترسیل و تقسیم کی لاگت کو ہی سامنے لایا گیا حالانکہ میڈیا انڈسٹری کا بنیادی خام مال انسانی ذہن یا افرادی قوت ہے۔ یہی وہ بنیادی خام مال ہے جو ایک سادہ کاغذ کے ٹکڑے کو قابل فروخت پراڈکٹ میں تبدیل کرتا ہے ورنہ آپ کے کمپیوٹر، پرنٹینگ پریس اور روشنائی وغیرہ میں اتنی قوت ہرگز نہیں ہے کہ وہ 24×36 کی کاغذ کی ایک شیت کو اس قابل بنا سکیں کہ میں صبح ہی صبح اس کا انتظار کروں۔ بد قسمتی سے اس افرادی کو ہمیشہ ایک بوجھ سمجھا گیا۔ حالانکہ ایک وقت تھا جب اخبارات کی ساکھ اس میں کام کرنے والے افراد کی وجہ سے قائم ہوا کرتی تھی اور آج یہ پوزیشن ہے کہ آپ سروے کروالیجیے عام قارئین کو شائد بڑے بڑے اخبارات کے مالکان کا نام تو معلوم ہو لیکن ان کے مدیران کے نام سے شائد ہی کوئی واقف ہو، حالانکہ یہ مدیر ہی ہوا کرتا تھا جس کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہوا کرتا تھا۔ اب مالکان کا ہاتھ سیاست کی نبض پر ہوتا ہے، اور وہ اپنے اخبار سے سیاسی قوتوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں، اس چکر میں معاشرے کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں نتیجہ یہ کہ معاشرے کا اعتماد بالکل کھو چکے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ معیاری افرادی قوت کو اسی طرح اہمیت دی جائے جس طرح کسی بھی دوسری پراڈکٹ میں معیاری خام مال کو دی جاتی ہے۔

دوسری اہم بات نفع نقصان پیش کرتے ہوئے وہی کہانی سنائی جاتہ ہے کو آپ نے بیان کی کہ کاغذ کی پیداوار کی لاگت اتنی ہوئی اور نیوز ایجنٹ کا کمیشن کاٹنے کے بعد ادارے کو اتنے پیسے ملے گویا جتنے میں سادہ کاغذ نہیں آتا ہے اس سے کم مالکان کو تیار شدہ اخبار کے ملتے ہیں۔ حالانکہ سب کو علم ہے کہ اخبارات کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ اشتہارات ہی ہوا کرتے ہیں، اور آپ نے بھی اپنے اس کالم میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن آج تک ان اشتہارات کا فائدہ کبھی قاری کو نہیں پہنچایا گیا ہے۔ عموماً اخبارات میں اتوار کو اشتہارات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، اور اس روز اداروں کی آمدنی بھی سب سے زیادہ ہوتی لیکن اس دن بھی قاری کو فائدہ پہنچانے کی بجائے قیمت بڑھا کر اور ریڈنگ میٹیریل کم کرکے الٹا نقصان ہی پہنچایا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی یہ عذر پیش کرے کہ اس دن صفحات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور میگزین بھی ہوتا ہے اس کی لاگت زیادہ ہوتی ہے تو مؑذرت کے ساتھ میں یہ دلیل ماننے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ آپ کے علم میں ہے کہ میں جس پوزیشن پر کام کرچکا ہوں اور میرے پاس جس قسم کا اندرونی ڈیٹا موجود رہا وہ میرے پاس اداروں کی امانت ہے، وہ تو شائد میں کبھی کسی کو نہیں دوں گا لیکن میں اس ڈیٹا کی مدد سے اپنے مختلف قسم کی ورکنگ بنایا کرتا تھا۔ اور اس ورکنگ نے میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہمارے ملک کے چھ سے آٹھ بڑے اخبارات قارئین کو مالی فائدہ نہ بھی پہنچائیں صرف اتنا ہی کریں کہ ایک فارمولہ بنا لیں کہ ایک اخبار میں پرنٹڈ ایریا کا کم از کم ساٹھ فیصد خبروں، تبصروں اور دیگر ریڈنگ میٹیریل پر مبنی ہوگا اور چالیس فیصد اشتہارات پر مبنی ہوگا تو آج بھی ہماری انڈسٹری میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ یہ انڈسٹری دوبارہ اکھڑی ہوسکتی ہے۔

.یہاں کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اب ڈیجیٹل میڈیا کی باعث اخبارات کی مارکٹ دنیا بھر میں کم ہورہی ہے تو ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ لیکن میں یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ کیونکہ کسی بھی انڈسٹری کو ایک خآص مقام پر پہنچنے کے بعد ہی زوال آنا شروع ہوتا ہے۔ اس مقام کو سیچوریشن پوائینٹ کہا جاتا ہے۔ آپ ہی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتا دیجیے کیا ہمارے ملک کی پرنٹ میڈیا انڈسٹری سیچوریشن پوائینٹ پر پہنچ چکی ہے؟ یقیناً آپ کا جواب نہیں میں ہوگا۔ اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ قومی اخبارات کی فروخت تو کم ہوتی جارہی ہے لیکن مقامی اور صوبائی زبان کے اخبارات کا وہ برا حال نہیں ہے۔ ذرا سندھی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات کی ٹوٹل فروخت جمع کیجیے تو پتا چلے گا یہ کئی قومی اخبارات سے کہیں زیادہ ہے۔

.پھر سب سے اہم چیز اخباری دنیا میں جو بالکل ہی عنقا ہے وہ ہے شعبہ مارکیٹنگ۔ مجھے سوائے ایک آدھ اخبار کے کہیں بھی مارکیٹنگ کا شعبہ نظر ہی نہیں آیا، اور جہاں ہے وہاں بھی جزوی طور پر ہی ہے۔ میرے اس دعویٰ کو سن کر اکثر اخبارات کے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ والے مجھ پر اسی طرح مسکرائیں گے جس طرح کسی بھی دیہاتی کسان کو دھوتی پر ٹائی باندھے دیکھ کر مسکرائیں گے۔ لیکن ایک منٹ کو میرا ایک جملہ سن لیں۔ اخباری دنیا میں جس کو مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کا نام دیا جاتا ہے اور حقیقت میں سیلز ڈپارٹمنٹ ہی ہے مارکٹنگ ڈپارٹمنٹ نہیں ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے جس کو آپ لوگ سرکولیشن کہتے ہیں وہ اخبار تقسیم ہی کرتا ہے، فروخت نہیں کرتا ہے، کیونکہ جب وہ فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو تقسیم کار نیٹ ورک اس کی راہ میں اتنے روڑے اٹکاتا ہے کہ خؤد مالکان کہتے جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دو۔ اور مارکٹنگ والے اخبار نہیں اخبار میں اشتہار کی جگہ (اسپیس) فروخت کرتے ہیں۔ اور آخر میں پتا یہ چلتا ہے کہ اخبار بیچ تو کوئی بھی نہیں رہا ہے۔ اخبار کی گنجائش کا سروے تو کسی ادارے میں نہیں ہوتا ہے، قاری کیا پڑھنا چاہتا ہے یہ جاننے کا ذمہ دار کوئی بھی ڈپارٹمنٹ نہیں ہوتا ہے۔ اپنے اخبار کے مزاج کے لحاظ سے متوقع مارکٹ کا پتا کوئی بھی نہیں چلاتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ میں بہت اچھا سا پیزا بنا لوں لیکن بیچنے کے لیے اس کو پیز ہٹ کے کاؤنٹر پر رکھوا دوں اور بعد میں گلہ کروں پیزا ہٹ والے میرا پیزا پروموٹ ہی نہیں کر رہے ہیں۔ تو جناب جب تک میں اپنا پیزا خود بیچنے کی کوشش نہیں کروں گا اس وقت تک میری کوئی ساکھ قائم نہیں ہوگی۔

.موجودہ حالات میں آپ سمیت میڈیا سے متعلق افراد میڈیا کی بحالی کے لیے جو کچھ کرنا چاہ رہے ہیں وہ ریسکیو آپریشن تو ہوسکتا ہے لیکن ضرورت بھالی آپریشن کی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آج پاکستان کے معاشی مسائل میں سعودی عرب اور عرب امارات اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے ملنے والی مالی معاونت کی حیثیت ابتدائی طبی امداد والی ہے اس کے بعد ضرورت مریض کی مکمل بحالی کی ہوگی ورنہ سب ضائع ہوجائے گا، اسی طرح پرنٹ میڈیا بھی مکمل بحالی چاہتا ہے ورنہ سب ضائع ہوجائے گا۔(سلیم فاروقی)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں