تحریر؛ عبدالرحیم شریف
سن دوہزاردوکی بات ہے،ملک میں صرف پانچ یا چھ پرائیوٹ ٹی وی چینلز تھے،اب ان کی تعداد سو سے زائد ہوچکی ہے،پرائیوٹ چینلزسابق صدر پرویزمشرف کے دورمیں آئے۔پھرسوشل میڈیاکاسیلاب آگیا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے،ٹی وی، ڈیجیٹل وسوشل میڈیا نے پرنٹ میڈیا یعنی طباعتی شعبے کو نگلنا شروع کردیا۔پاکستان میں ایڈورٹائزنگ کے حوالے سے اہم ویب سائٹ ارورا کی دوسال قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں دس سال قبل مجموعی اشتہارات کا پچپن فیصد پرنٹ میڈیا کو ملتا تھا،جو کم ہوتے ہوئے تیس فیصد تک آچکا ہے۔جبکہ ملک کے مجموعی اشتہارات کا لگ بھگ ساٹھ فیصد حصہ ٹی وی چینلز کو جارہاہے۔تازہ صورتحال یہ ہے کہ اخبارات کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا شکوہ ہے۔
پاکستان میں اخبارات وجرائد سے وابستہ ہزاروں افراد کا روزگار داﺅ پرلگ چکاہے۔حالیہ چند برسوں میں کئی اخبارات وجرائد بند ہوئے ،ایڈیشن اور میگزین کی اشاعتیں سکڑ چکیں۔گو کہ ٹی وی چینلز کی صورتحال الگ دگرگوں ہے ،لیکن پاکستان میں پرنٹ میڈیا بدترین بحران اورسنگین مسائل سے دوچار ہے۔درجنوں اخباروجرائد بند ہوچکے ہیں۔ہزاروں ورکرز بے روزگار ہوچکے ۔
جنگ گروپ نے دن کا اخبار روزنامہ عوام،لاہورسے نکلنے والاروزنامہ آواز،وقت اورروزنامہ انقلاب عملا بند کردیا،انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کا قصہ بھی ختم ہوچکا،،جنگ اخبارکا فیصل آباد،ملتان ایڈیشن کا مجوزہ پروگرام بھی رول بیک ہوچکا ہے۔پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ ایکسپریس کی حالت بھی مختلف نہیں،گیارہ شہروں سے نکلنے والا اخبارصرف دوشہروں کراچی اورلاہورتک محدود ہوگیا ہے۔ایکسپریس کا ایوننگ اخبار انصاف ٹائمز کو بھی تالے لگ گئے، روزنامہ ایکسپریس سولہ صفحات اوراتوارکو بیس صفحات پرمشتمل ہوتا تھا،اب بارہ صفحات تک سکڑچکا ہے۔ڈاﺅن سائزنگ یہاں بھی جاری ہے۔مزید ڈھائی سوملازمین کی فہرست تیارہے۔دنیا اخبارکی حالت بھی مختلف نہیں ۔اس کے بھی کئی ایڈیشن بند ہوچکے ۔دنیااخبارکے میگزین۔ جو لاہور،کراچی اوردیگرشہروں سے الگ الگ نکلتے تھے،اب اسے سینٹرلائز یعنی ایک کردیا گیا ہے۔رسالے اورجرائد سمیت بیشتراخبارات کی سرکولیشن نصف ہوچکی۔ یعنی اخباروجرائد تو تیارہے،،لیکن خریداردستیاب نہیں۔چنانچہ مالکان نے ورکرزکو بھی محدود کرلیا ہے۔نوائے وقت کے کئی ایڈیشن بند ہوئے،اب صورتحال یہ ہے ،،سات ماہ کی تنخواہوں سے محروم قلم کے یہ مزدوراحتجاج کی راہ پرچل پڑے ہیں۔
امت اخبارکی صورتحال دلچسپ ہے۔ماہنامہ غازی بند ہوا۔تکبیر نیم جاں ہے۔چند برس قبل امت نے راولپنڈی اورپشاورسے اپنے ایڈیشن نکال کر ادارے کو ترقی دینے کی کوشش کی لیکن کسطرح؟؟؟؟ورکرز یہاں بھی دس دس ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔جرائد بند ہوئے۔ضمیمے بند ہوئے ۔ شام کے اخبارات بند ہوئے۔ڈاﺅن سائز نگ جاری ہے،اورجہاں نہیں ہورہی وہاں تلوار لٹک رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ؟سرکاری اشتہارات کا بند ہونا درست ہے لیکن کیا پڑھنے پڑھانے کا رجحان ختم ہوچکا؟؟یامہنگائی نے اخباربینی عوام سے چھین لی ۔؟؟ یا یہ تبدیلی ۔کوئی ریاستی ایجنڈا ہے۔؟؟سوال تو بنتا ہے۔
اخبارات جو کبھی ایک روپے،،دوروپے اورپانچ روپے میں دستیاب تھے۔۔قیمت پچیس روپے تک ہوچکی ہے۔۔کتابوں کی قیمت سیکڑوں سے ہزارتک۔۔۔جرائد بھی سوپچاس سے کم نہیں۔لیکن معیاراورمواد قارئین کے لیے پہلے والے نہیں رہے۔باقی کسرٹی وی چینلز ،ڈیجیٹل اور سوشل میڈیانے پوری کردی۔۔ پرنٹ میڈیا کی صنعت کی بنیادیں لرز رہی ہیں۔
سوشل میڈیا کا سیلاب اورمہنگائی سب باتیں درست لیکن دوسری طرف کتابیں اوراخبارات نہ خریدنے والے عوام روزانہ فاسٹ فوڈ اورشاپنگ پرسیکڑوں نہیں ہزاروں لٹاتے ہیں،،،جوتا دوہزار روپے کا خرید سکتے ہیں،،،لیکن کتاب ہزارروپے میں زندگی بھر نہیں خرید سکتے،،،،،موبائل فون پیکجز اورتحائف پرشاہ خرچیاں الگ ہیں۔۔عوام تو عوام اب خواص بھی اخبارخریدتے ہیں اورنہ پڑھنے کی زحمت اٹھاتے ہیں۔
صحافتی واشاعتی ادارے بحران کی زد میں ہیں۔وہ اس کا ذمہ دارحکومت کو ٹھہراتے ہیں،۔مسائل بتانے والے اپنے مسائل حل کرنے سے عاجز ہیں۔لیکن ارباب حل عقدپربھی جواب واجب ہے کہ پرنٹ میڈیا کی تباہی کا ذمہ دارکون ہے۔؟عوام تو کاالانعام ہیں پرخواص بھی اپنے گریبان میں جھانکیں،کتابوں کا کا گلا کون گھونٹ رہا ہے۔؟علم ،شعوراورآگہی سے اچھے برے کی پہچان ہوتی ہے ۔یہ پہچان مٹ جائے تومعاشرہ اورریوڑمیں فرق مٹ جاتاہے۔(عبدالرحیم شریف)