تحریر: محمد زکریا محی الدین
مضامین کے اس سلسلے سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ راقم کی ذاتی رائے ہے جو گذشتہ طویل تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر قائم ہے۔
دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا کو میڈیا کی بنیاد سمجھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت آج بھی وہیں ہے۔ دور کیوں جائیں پڑوس میں بھارت میں بڑے اخبارات اور میگزینوںکی سرکیولیشن کم ضرور ہوئی ہے مگر وہاں نا تو اخباری کارکنان بے روزگار ہوئے اور نہ ہی وہاں کا پرنٹ میڈیا دگرگوں حالات سے دوچار ہے۔ مگر ہم جب اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو یہاں میڈیا انڈسٹری کا سب سے مظلوم حصہ پرنٹ نظر آتا ہے۔ پرنٹ کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب پاکستان میں پرائیویٹ چینلوں کو اجازت ملی۔ مگر اس کے باوجود پرنٹ اپنی جگہ پر مستحکم رہا ۔ جنگ ، نوائے وقت، روزنامہ پاکستان ، آغاز ، شی، ہیرلڈ ، نیوز لائین اور وومنز اون جیسے پرنٹ کے اخبارات اور میگزین موجود تھے ۔ علاقائی اخبارات بھی مظبوط رہے جیسے کاوش ۔ مگر پچھلے 7یا 8 سال میں جیسے جیسے ڈیجیٹل میڈیا ارتقائی ترقی کرنے لگا پرنٹ کا حال برا سے بدتر ہوگیا۔ ہیرلڈ ، نیوز لائین ، شی اور وومنز اون کا بند ہونا کم از میرے جیسے شخص کے لئے بہت افسوسناک ہے۔ یہ اپنے وقتوں کے وہ میگزین تھے جن کی سرکیولیشن اور اس کے قارئین بہت ذیادہ تھے۔ جنگ نوائے وقت ڈان کی سرکیولیشن بھی اب وہ نہیں ہے جو اب سے 5 سالوں پہلے تھی۔ چھوٹے اخبارات کا تو حال نہ ہی بتایا جا ئے تو بہتر ہے۔ ذیل میں میں ان اسباب کا ذکر کروں گا جو اس زوال کا سبب بنا۔
1:قارئین کی روش
پاکستان میں تعلیمی سطح ہمیشہ سے وہ نہیں ہے جو پڑوسی ملک کی ہے۔ ایسے افراد کی تناسب بہت کم ہے جو لکھ پڑھ سکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ سطح اتنی تھی جس کی بنیاد پر پرنٹ میڈیا اشتہارات لے سکتا تھا۔ تو ایسا کیا ہوا ؟ ہوا کچھ یوں کہ سوشل میڈیا کے عروج کے ساتھ ہی ایسی آبادی کو ایسا میڈیا ہاتھ لگ گیا جس کو استعمال کرنے کے لئے بہت ذیادہ پڑھائی کی ضرورت نہیں ہے۔ اوپر سے یہ میڈیا وہ سارے چسکے پورے کرتا ہے جو کسی زمانے میں چترالی یا ایگل جیسا پرنٹ میڈیا دیتا تھا۔ یہ پورا سیلاب سوشل میڈیا پر جا دھمکا ۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو پرنٹ کو اہمیت دیتے تھے وہ بھی سوشل میڈیا کی جانب متوجہ ہوگئے ۔
2: قوت خرید
اخبار ہو یا میگزین اس کو خرید کر پڑھنا پڑھتا ہے۔ اس کے سامنے سب سے پہلے ریڈیو آیا جس کو سننے کے لئے بس ایک ریڈیو لینا پڑتا تھا، پھر پرائیویٹ چینل آئے جس کے لئے مہینے کے 300 روپے مہینہ دے کر کوئی بھی ناظر مہینہ بھر بہت سارے چینل دیکھ اور سن سکتا ہے پھر آیا سوشل میڈیا اور سستے انٹر نیٹ پیکجوں کی وجہ سے (جن کے مذید سستا ہونے کی خبریں ہیں ) ٹی وی اور پرنٹ سے کہیں ذیادہ معلومات اور تفریح کے مواقع دستیاب ہوگئے لہذا ایسے میں کون خرید کر اخبار اور میگزین پڑھے گا ؟وہ بھی ایسی خبریں جو ایک دن پہلے یا تو ٹی وی پر چل چکی ہوںاور اس سے پہلے سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہوں۔
3: سستی کی روش
میری ذاتی رائے میں اخباری رپورٹرز اور ایڈیٹرز نے سستی کی روش اختیار کی اور ان خبروں پر اکتفاء کرنا شروع کردیا جو پہلے سے سوشل میڈیا یا ٹی وی پر چل چکی ہوتی ہیں۔ میں اب بھی اخبار پڑھتا ہوں اور صفحہ اول کی ان تمام خبروں کی نشاندہی کرسکتا ہوں جو سوشل میڈیا یا ٹی وی پر چل چکی ہوتی ہیں۔ باسی خبر کیا ہوتی ہے اس کی اہمیت صحافی اچھے سے جانتے ہیں۔ تو قارئین جن کو سوشل میڈیا اور ٹی وی تک رسائی حاصل ہے وہ کیوں باسی خبر کے پیسے ادا کریں ؟
یہ تو میری ناقص رائے میں وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے پرنٹ زبوں حالی کا شکار ہوا۔
اب میرے خیال میں پرنٹ میڈیا مالکان اور کارکنان کو کرنا کیا چاہئے تھا کہ ان کی شناخت اور کاروبار محفوظ رہتی
1: ایکسکلوزیو خبر
کارکنان خاص طور پر رپورٹرز اور ایڈیٹرز کو بہت محنت کرنی چاہئے تھی کہان کے پاس کوئی ایسی خبر ضرور ہوتی جس میں عوامی دلچسپی ہوتی اور صرف انہی کے پاس شائع ہوتی۔ اس سے قارئین کم از کم یا تو اس دن کا اخبار خرید کر پڑھتے اس سے پہلے کہ کوئی اس کو سوشل میڈیا پر ڈالتا یا وہ میگزین خریدتے۔ اور وہاں بھی کاپی رائیٹس لاگو ہوتے ہیں لہذا اس صورت میں اسے وہاں سے ہٹایا جاسکتا تھا۔
2: تبدیلی کا استعمال
اخبارات اور میگزینوں نے اپنے بقا کے لئے اس تبدیلی کو اپنے حق میں استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھا جو اس وقت سامنے نظر آرہی تھی۔ سوشل میڈیا کو پرنٹ نے اپنی مارکیٹنگ کے لئے نہ پہلے استعمال کیا نہ اب ایسے کوئی ارادہ نظر آتا ہے۔ اگر کوئی ایکسکلوزیو ہو تو اس کے شائع کرنے سے پہلے اس کا ٹیزر سوشل میڈیا پر چلانے میں کیا قباحت تھی یا ہے یہ میں سمجھ نہیں پایا۔ اس سے فائدہ اسی اخبار یا میگزین کو ہونا تھا جس کے پاس کچھ ایسا ہوتا جس کی بنیاد پر قاری خریدنے کے لئے مجبور ہوتا۔ضرورت ایک اسٹریٹجی کی تھی جو بنائی نہیں گئی۔ پھر جب آپ کو نظر آرہا تھا کہ مستقبل کا میڈیا ڈیجیٹل ہے تو اس کی تیاری نہیں کی گئی۔( محمد زکریا محی الدین)۔۔