تحریر: شکیل بازغ
فواد چوہدری نےقومی سلامتی و تعمیر اور ذرائع ابلاغ کے موضوع پر سیمینار میں خطاب کے دوران نہایت اہم ترین نکات پیش کیئے۔ دراصل اسے حکومت کے ویژن پالیسی و آئندہ منصوبے کا اعلان تھا۔ انکے خطاب کے چند اہم نکات کو ممکنہ سیاق و سباق کیساتھ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ میرا تجزیہ ہے جس سے اختلاف ممکن ہے۔
1۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اقوام عالم کے مابین کے معاملات معیشت جبکہ جمہوریت کے تابع ممالک فرداً لبرلازم کے نظریئے کے پھیلاو پر کاربند ہیں۔اور ہمیں۔دنیا کی مطابقت میں ملک کو لے کر جانا ہے۔۔
سیاق و سباق: یہ دو کھُلے پیغامات ہیں،کہ تحریک انصاف کی حکومت عالمی معاشی دوڑ کا حصہ بنے گی۔ جبکہ اسلامی جمہوری پاکستان کو سیکولر ملک بنانا ہے۔ اس سے پہلے بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ وہ مذہبی رجحانات کے حامل افراد کو شدت پسند کہہ چکے جو کہ ایک سیکولر سوچ کی ترجمانی ہے۔انہیں یہ لگتا ہے کہ معیشت کے رستے میں مذہبی تصورات بڑی رکاوٹ ہیں۔ جیسے کہ یہود و نصارٰی سے بلارکاوٹ معاملات و۔موالات گریٹر اسرائیل کی تکمیل میں پاکستانی عوام کی اسرائیل کو سے سے تسلیم نہ کرنے کی روِش اور اسلام میں حرام مواد سے بنائی گئی عالمی پراڈکٹس کی محدود ترین فروخت معیشت کو پھلنے پھولنے نہیں دیتیں۔ جس سے ملکی پیداوار ایک محدود دائرے میں ہی ہوسکتی ہیں۔ سوءر کے بالوں تک سے مغربی دنیا اربوں ڈالر کما رہی ہے لہٰذا ریاست کے آئین و قوانین کو مذہب کی حد بندیوں سے باہر نکالا جائے۔تاکہ دنیا پاکستان کو پسماندہ دقیانوس ملک نہ سمجھے
2۔ اسی خطاب میں فواد چوہدری نے کہا کہ دنیا عقلیت پسندی پر گامزن ہے ہمیں۔اکیسویں صدی کے نظریات کی مطابقت میں چلنا ہوگا۔۔
سیاق و سباق: فواد چوہدری کی بات کا مطلب ہے مجموعی ذہانت ہی کو مستند مانا اور عوام پر اسی کی ذہنی اختراعات کو لاگو کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے مجموعی ذہانت میں قابل رائے قانون ساز اسمبلی کے منتخب ممبران تصور ہوتے ہیں۔ یعنی پارلیمنٹ کے علاوہ کچھ مقدس نہ مانا جائے۔عقلیت پسندی روحانیت کی ضد اور متضاد نظریہ ہے۔روحانیت من و عن اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اطاعت کو کہتے ہیں۔ جس شریعت میں عقل کو دخل نہیں تحریک انصاف کے ویژن کے مطابق دراصل عقل کو ہی مستند مانا جائے۔
3۔انہوں۔نے مزید کہا کہ (میڈیا چونکہ عوام اور ریاست میں ایک پُل کا کردار ادا کرتا ہے) میڈیا بزنس مالکان کو اپنے بزنس ماڈلز تبدیل کرنا ہونگے۔ملک میں میڈیا کی تین اقسام کو تین مختلف سرکاری شعبے کنٹرول کر رہے ہیں جسکی ضرورت اس لیئے نہیں کیونکہ گوگل تیز رفتار انٹرنیٹ رفتار مفت دے رہا ہے اور اب موبائل ہی میڈیا ہے۔ ٹی وی چینلز کی صحافت کو انٹرنیٹ ٹرانسمیشنز میں ڈھالا جائے۔ لہٰذاایک ہی ادارہ ان سب کو کنٹرول کرے گا۔
سیاق و سباق: عوام میں مخصوص فکر اجاگر کرنے کیلئے میڈیا کا کردار نہایت اہم ہے۔ یہ غیر محسوس طریقے سے اذہان پر اثر انداز ہوکر قومی ثقافت رسوم بناتا ہے۔ جیسا کہ میں کئی بار اس بات کا ذکر کر چکا کہ صیہونی منصوبوں کے مطابق دنیا بھر کو ایک یونٹ بنایا جائے جسے international regulations کہا جاتا ہے تاکہ کسی مذہبی تفریق سے بالا تر ہوکر عوام کی نجی زندگی گزارنے کی تمام تر ہدایات ایک عالمی ہدایات کے مرکز سے ہوں حتٰی کہ کھانا پینا پہننا روزمرہ کی مکمل طرز زندگی علاج لباس رہن سہن خاندان کے حجم کا فیصلہ یکساں طور لبرل سٹیٹس کے تحت ہو یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ Anti christ Dajjal کی دنیا بھر میں مضبوط حکمرانی کے خواب کی جانب زور وشور سے بڑھا جارہا ہے۔ اس سے پہلے صیہونی پراڈکٹس کی بلاتفریق فروخت و قبولیت دنیا کے چپے چپے میں ایک جیسی ہو۔ حرام حلال کی بحث ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سارے کا سارا میڈیا لبرلازم نظریات کے پھیلاو کا ماڈل اور ایڈیٹوریل پالیسی تبدیل کرے وگرنہ سوشل میڈیا کے صارفین کو مخصوص لبرل سوچ کی جانب ہانکا جائے۔۔اسکے لیئے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے بھی صحافتی و دیگر عوامی رائے پر اثر انداز ہونے والے مضامین اور خصوصی کورسز کا نصاب لبرلازم کے پیرائے میں ترتیب دیں۔شکیل بازغ)۔۔