district press club haafiz abad ka election schedule jaari

پریس کلبوں کی سیاست۔۔

تحریر :شوکت علی وٹو

پاکستان کے تمام پریس کلبز میں سالانہ انتخابات معمول کا حصہ ہے لیکن حافظ آباد میں ڈسٹرکٹ پریس کلب میں انوکھے انتخابات ہوتے ہیں جو کئی کئی سال پہلے  قرآن پاک پر قسم تحریر کی شکل میں لکھے جاتے ہیں مطلب باریاں بنا لی جاتی ہے کس گروپ نے کس سال چئیرمین سیکرٹری بننا ہے جس جمہوری عمل کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے ان معاہدوں کے بعد پھر نئے معاہدے جنم لیتے ہیں ان معاہدوں میں گروپ لیڈران ہی کردار ادا کرتے ہیں ڈسٹرکٹ پریس کلب حافظ آباد میں ممبر شپ صرف سٹی حافظ آباد کے لوگوں کی ہے اس میں 98 فیصد نمائندگی شہر حافظ آباد کے صحافیوں کی ہے جبکہ جلالپور بھٹیاں ،پنڈی بھٹیاں ،سکھیکی منڈی،کالیکی منڈی ،ونیکے تارڑ کے پریس کلبز کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ضلع کی دوسری تحصیل اور قصبہ جات کے پریس کلبز کی نمائندگی نہ ہے جس سے یہ صرف سٹی پریس کلب ہی لگتا ہے اگر تمام شہروں قصبہ جات کے صدر و سیکرٹری کو نمائندگی مل جائے جائے تو پھر ڈسٹرکٹ پریس مکمل ہوتا ہے کچھ عرصہ سے پریس کلبز میں گروپنگ کی وجہ سے معاہدے قرآن پاک پر حلف سے جمہوری عمل رک گیا ہے جب گروپ لیڈرز قسم قرآن تحریری معاہدے کر لیں تو پھر جمہوری عمل مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے باریاں رہ جاتی ہے ایک سال تم ایک سال ہم یہ سلسلہ ختم نہیں ہو رہا اس سے سرمایہ درانہ نظام کو بھی تقویت ملتی ہے اس عمل سے شہریوں کی آواز مسائل دب کے رہ جاتے ہیں سیاسی مداخلت جس کے بھی ذمہ دار تمام گروپس ہیں جو ہر اقتدار والی پارٹی سے آشیرباد لیتے ہیں جبکہ پریس کلب  مکمل طور پر سیاست سے پاک رہنا چاہیے تاکہ ہر فرد پریس کلب کو غیرجانبدار پائے جو کہ نہ ہے جمہوری عمل کے لیے شفاف انتخابات کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو پریس کلب میں ممکن دیکھائی نہیں دے رہا اسی طرح خفیہ رائے شماری بھی بہت ضروری ہے وہ بھی اس عمل کے حصہ نہیں پھر تمام گروپس میں غیر صحافتی لوگوں کی شمولیت کی وجہ سے ممبر شپ بھی آڑے آرہی ہے جن کا تعلق صحافت سے نہیں ان کو ممبر شپ دی گی تاکہ پریس کلب میں صرف ووٹر زیادہ رھیں گھوسٹ ممبران بھی بہت نقصانات کا سبب بن رہے ہے پریس کلب میں ورکنگ صحافی پیچھے ہیں یہ صرف صحافت سے وابستہ افراد کا ہی ہونا چاہیے تھا اس پریس کلب میں وہ افراد بھی ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ ہمارا صحافت سے کیا لینا دینا تعلق اور ممبر پریس کلب بھی ہیں وہ افراد بھی ہیں جنہوں نے پوری زندگی شاید کوئی خبر لکھی یا شائع کی ہو پھر 6 ماہ کا ریکارڈ کس کس کے پاس ہے کون کون نیوز لکھتا ہے یہاں 90 فیصد کاپی پیسٹ کر رہے ہیں اب وہاں صحافت کیسے پنپ سکتی ہے سب سے بڑا خوف کہ پریس کلب میں کوئی ورکنگ صحافی کہیں چئیرمین وغیرہ نہ بن جائے دوسری جانب جمہوری عمل کو پسند دعوے دار بھی ہیں تو حوصلہ کر کے مکمل جمہوری عمل کو کیوں نہیں اپناتے پریس کلب میں حقیقی جمہوریت کے ساتھ پڑھے لکھے لوگوں ورکنگ صحافیوں کو نمائندگی کا چانس مل جائے گا اور سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں، سیاست دانوں، کاروباری ودیگر کی بجائے حقیقی ورکنگ صحافی سامنے آئیں گے سال 2020 میں کابینہ کے افراد کا نیوز ریکارڈ سامنے ہے کتنے افراد نیوز لکھتے، دیتے رہے جب لکھاری لکھے، نیوز نہیں دے گا تو صحافی کیسے ہو گیا اگر بہتری چاہتے ہیں اور پریس کلب کا وقار بلند کرنا مقصود ہے تو خدارا تمام گروپس پڑھے لکھے  ورکنگ صحافیوں کی ممبر شپ کے علاوہ تمام غیر فعال افراد جن کے پاس نہ تعلیم ہے اور نہ نیوز ہے فارغ کر دینا چاہیے تبھی پریس کلب کا وقار بلند ہو گا تمام گروپس لیڈران کو معلوم ہے پڑھے لکھے کون ہے لکھاری ورکنگ صحافی کون ہے اور گھوسٹ ممبران کون؟(شوکت علی وٹو)۔۔

hubbul patni | Imran Junior
hubbul patni | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں