تحریر: ناصر جمال
ایتھے زہر وی کھان نوں نئیں ملدا
توں لبھدی پھریں۔۔۔ اناج کڑے
ایتھے مٹی دے وچ رُلدے نئیں
ساڈے نیلم تے۔۔۔ پُکھراج کڑے
جدے ہتھ بندوق تے سوٹا اے
ایتھے اوہدے سرتے۔۔۔ تاج کڑے
ساڈھے دیس دے منصف انھے نئیں
نہ مار انہاں نوں۔۔۔واج کڑے
ساڈے دیس تے غنڈا راج کڑے
یہ اشعارفی البدیہہ ہیں۔ میں پہلے شعر سے ہی تکلیف میں ہوں۔ میرے کالم کے جواب میں، مظلوم شاعر نے پہلے ایک شعر بھیجا۔ پھر آمد ہوئی تو ،ایک، ایک کرکے شعر موبائل اسکرین پر چمکنا شروع ہوگئے۔ میری آنکھوں میں نمی ہے۔ میرا دل رو رہا ہے۔ حکومت اور حالات کے ستائے، اپنے صحافی بھائی اور شاعر کے، اس بار چاہتے ہوئے بھی، ساتھ نہ کھڑا ہوسکا۔ پہلے تقریباً چار ہفتے بیمار تھا۔ اس کے بعد، بیماری اور معیشت کے ’’آفٹر شاکس‘‘ تھے۔ ہمیشہ مدد کیلئے تیار،راجہ اسد کو بھی، اس ضمن میں مدد کیلئے نہیں پُکار سکا۔ ان کا ایک کام، بھرپور کوشش کے باوجود نہیں کرسکا۔ ایک راجپوت نے آدھا کام کردیا۔ کیونکہ وہ خاندانی افسر ہے۔ دوسرا، دوسرے راجپوت نے کرنا تھا۔ مگر اُس نے وعدے کے باوجود، ایک سال گزار دیا۔ کمال بچے پر بچے دیئے۔ یہ ٹھیکیداری بھی عجیب فیلڈ ہے۔ یہ ’’جبان، وچن‘‘ کی طاقت حتیٰ کہ ’’جینز‘‘ کو بھی کھا جاتی ہے۔
کسی نے رانا چندر سنگھ کو کہا کہ ’’یہ رائو سکندر اقبال ہیں۔ اعلیٰ درجے کے راجپوت ہیں۔‘‘ انھوں نے توجہ نہ دی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ’’وہ صرف نظر (ویل لفٹ) کررہے تھے۔‘‘ مسلسل تکرار پر، وہ مسکرائے۔ ایک موٹی سی گالی (عادتاً) دی اور کہا کہ یہ کس چیز کے راجپوت ہیں۔ دھرم تک تو تبدیل کرلیا۔ رائو سکندر کی حالت دیدنی تھی۔ ایک راجپوت پر بہت ہی کاری وار تھا۔ بات قہقہوں میں اُڑ گئی۔
اکبر بادشاہ نے زنجیروں میں بندھے شخص کے بارے میں پوچھا۔یہ کس ’’جاتی‘‘ کا ہے۔ جواب آیا۔ یہ راجپوت ہے۔ ساتھ کھڑے محمد احسن راجہ اور چوہدری نثار علی خان کے پرکھوں نے کہا کہ ’’یہ راجپوت تو نہ ہووے۔‘‘ اکبر بادشاہ نے اُلجھے ہوئے لہجے میں، رائے کوٹ تلونڈی کے راجائوں، رائے قلعہ خان اور رائے جلال خان سے پوچھا، کیا مطلب ہے۔ دونوں راجائوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ راجپوت ہوتا تو ’’اس کی ’’لاس‘‘ آنی چاہئے تھی۔‘‘ اکبر بادشاہ نے طنزاً کہا، تم لوگوں کو اپنی ’’جات‘‘ پر بڑا گمنڈ ہے۔ دونوں راجپوت بھائیوں نے بلاخوف و تردید کہا کہ ’’دنیا میں صرف جات ہی ایک ہے۔ وہ راجپوت ہے۔‘‘ اکبر بادشاہ بہت تلملایا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ رائے کوٹ تلونڈی پہنچے تو، سکھوں کے غالباً گیارویں یا دسویں گرو، گرو گُوبند سنگھ نے گورنر سرہند کے ہاتھوں شکست کے بعد، اپنے بیٹے، رائے کوٹ تلونڈی بھیج دیئے۔ گورنر سرہند نے، ریاست والوں سے مطالبہ کیا کہ ’’اسے، اس کے باغی دیئے جائیں۔‘‘ رائے برادران نے یہ کہہ کر گروگوبند کے سپوت، گورنر سرہند کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ ’’یہ باگی نہ ہوویں، یہ تو ہمارے مہمان ہیں اور راجپوت اپنے مہمان کسی کے حوالے نہیں کرتا۔‘‘(ویسے آپس کی بات ہےہم نے تو ایک سفیر کو امریکہ کے حوالے کردیا تھا۔) پھر گورنر سرہند سے جنگ ہوئی۔ جس میں گورنر سرہند کو شکست ہوئی۔ رائے کوٹ تلونڈی والوں کی شرائط پر صلح ہوئی۔ باقی داستان پھر کبھی سہی۔ یہ دونوں بھائی، اس کے فوری بعد، کیسے اُوچ شریف کے پیروں کے ہاتھ پر بیعت ہوکر، چکری آبسے۔ اور یہاں دین کا کام کیا۔
خیر بات، غریب، مظلوم اور ضرورت مند شاعر کی ہورہی تھی۔ آج میں چاہ کر بھی اس کا نام لکھنے اور مدد کرنے سے قاصر ہوں۔ کیا قیامت ہے۔ اور وہ قیامت کا شاعر ہے۔ جو ’’فلاحی اسلامی ریاست‘‘ میں تایا غالب سے بھی زیادہ مجبور ہے۔ قصیدہ گوئی آتی نہیں ہے۔ ’’زہریلا کلام‘‘ کسی کو چاہئے نہیں ہے۔ عوام ہیں کہ ’’تبدیلی کی افہیم‘‘ کھا کر سوئے ہوئے ہیں۔ انھیں مفاہمت کی ہیروئن اور تقویٰ کی آئس نے پہلے ہی برباد کررکھا ہے۔ شنید ہے کہ پھر سے ’’قرض کی مہ‘‘ کا جال ڈالا جائے گا۔ یا پھر ’’چھڑی‘‘ کی کرامات دکھائی جائیں گی۔ سب کچھ بدل جائے گا۔ ماسوائے ملک اور عوام کے حالات کے۔
مگر میرا مسئلہ دوسرا ہے۔ جہاں ادب اور فنون لطیفہ لاوارث ہو جائیں۔ وہاں معاشروں کے چہرے ایسے ہی بدصورت ، قبیح اور کراہت آمیز ہوتے ہیں۔ جہاں ’’فن‘‘ اور ’’فنکار‘‘ کی قدر ہوتی ہے۔ وہ دنیا پر حکومتیں کرتے ہیں۔ دلوں، روحوں، زمینوں، جہانوں کو مُسخر کرتے ہیں۔ جن ملکوں میں ہر شعبے کے فنکار، بُھوک سے مر رہے ہوں۔ اُن کے فن کو کوئی استعمال نہ کرسکے۔ اور نہ ہی وہ اپنے فن کو منوا سکیں۔ وہاں پھر تباہی آتی ہے۔ جیسے یہاں آئی ہے۔ آج اس ملک میں کسی پروفیشنل کی قدر نہیں ہے۔ سیاسی،خاکی اور انتظامی فنکاروں، نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔
آج یہاں ایسے افسر ہیں۔ ایک کمشنر کو کسی کلب کی ممبر شپ سے معذرت کی گئی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کھیل کونسا کھیلتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میری سپورٹس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ پھر وہ کلب کیا کرنے آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے۔ یعنی وہ کلب کو ’’روٹی کلب‘‘ سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے ’’پریس کلب‘‘ روٹی کلبز میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ اپنے ’’ایام جاہلیت‘‘ کے دوست انور رضا سے معذرت کے ساتھ۔
قارئین!!! آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ یہاں کیسے آفیسرز ڈویژن چلانے کیلئے رکھے گئے ہیں۔ باتیں انقلاب سے کم نہیں ہوتیں۔ یعنی صرف صوبے ہی نہیں، ہم ڈویژنوں میں بھی عثمان بزداروں میں خود کفیل ہیں۔ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
آج اگر کوئی رانا چند رسنگھ ، کوئی رائے کوٹ تلونڈی والا رائے ہوتا تو، غریب، خودار اور ضرورت مند شاعر کی ،میں کسی سے مدد کروانے کی پوزیشن میں ہوتا۔پہلے ہی عذاب کیا کم تھے۔ اس پر ہمارے خاکی اور شیروانی والوں کے میڈیا خلاف ’’جوائنٹ ونچر‘‘ نے ’’سچے قلم کاروں‘‘ کے گھروں میں بے روزگاری، بھوک اور ٹینشن نامی بلائیں چھوڑ دی ہیں۔
محسنؔ بھوپالی نے کہا تھا کہ
ہماری جان پہ دوہرا عذاب ہے محسنؔ
کہ دیکھنا ہی نہیں! ہم کو سوچنا بھی ہے
ایک مشہور زمانہ پی۔ آئی۔ او۔ہجرت کرنے والوں کی بے توقیری اور ملکی حالات پر آزراہ تفنن کہا کرتے تھے کہ ’’ہم تو مسلمان ہوکے ’’جلیل‘‘ ہوگئے۔‘‘ جبکہ آج کے قلم کار اور فن کار ، یہ کہتے ہیں۔ ہم یہاں پیدا ہوکر ’’ذلیل‘‘ ہوگئے۔ کسی کو شک ہے تو، محسن پاکستان کو ایک دن جیو کے ساتھ دیکھ لے۔ محسن پاکستان نے کہا اب ہم اس ملک کو کچھ نہیں بتائیں گے۔ جالبؔ کو دیکھ لیں۔ وہ کن حالات میں دنیا سے گئے۔ آج اُن کی جوان جہان بیٹی ’’اوبر‘‘ چلاتی ہے جبکہ سرکاری ٹیلی ویژن من پسند افراد میں بھاری تنخواہوں کی ریوڑیاں بانٹی جارہی ہیں۔ آخر قوم کی ہڈیوں سے نکالے جانے والے دس ارب روپے کہیں تو اُڑانے ہیں۔ ایک اسلامی اینکر کے بھائی کو لاکھوں کی ’’صافی تنخواہ‘‘پر رکھا گیا ہے۔ عدیم ہاشمی سے لیکر۔ جمیل نقش جیسے ہیرے لوگ، خود کو یہاں چھوڑ کر، پردیس میں جابسے تھے۔
وہ مل گیا تو اُسے گالیاں بھی دوں گا عدیمؔ
گلے لگاکے۔۔۔اُسے حال بھی سنائوں گا
تنگ دستی، بے قدری، بھوک اور ذہنی عذابوں سے شکست کھا کر، کتنے ہی، اُسی مٹی میں جاسوئے۔ جہاں اجنبیت ہی اجنبیت تھی۔
پھر وہی لوگ لکھنے پر مجبور ہوگئے۔
اِدھر ہے نسل میری، اُدھر بزرگ میرے
میں دوجزیروں سے ملتا ہوں ایک پُل کی طرح
ہے کوئی جو سمجھے کہ جب یہ پُل ٹوٹے گا تو کیا ہوگا ۔ یہ کون ہے جس نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ ادا جعفری نے شاید اسی کرب کو کچھ ایسے بیان کیا ہے کہ
اجنبی شہر کی گلیوں میں اداؔ
دل کہاں لوگ ہی ملتے ہونگے
قارئین!!!
میں ابھی تک ابتدائی اشعار اور آخری مصرے میں پھنسا ہوا ہوں۔ بطور ناتواں قلم کاراورادب کے طالب علم کے،مجھے اور میری روح کولفظوں کے نشتر مجروح کررہے ہیں۔ رامؔ ریاض کہتے تھے۔ جتنی ماں کو بچہ جننے میں تکلیف ہوتی ہے۔ کئی بار اتنی ہی تکلیف اشعار کہنے میں ہوتی ہے۔ مجھے اپنے دُکھ ، درد، بے روزگاری کے معاشی پھندے، شاعر کے سامنے ہیچ معلوم ہورہے ہیں۔
سمجھ نہیں آرہا۔ کس دوست کو تکلیف دوں۔ اس مسئلہ کو کیسے حل کروں۔ تبدیلی کے ’’جن‘‘ کے ہاتھوں دوستوں کی بنی دُرگت کا بھی احساس ہے۔ اور ’’ضرورت‘‘ نہیں، اشد ضرورت کے، کرب کا اندازہ بھی ہے۔
تو بھی پیارا ہے، زمانہ بھی حسیں
تجھے دیکھیں کہ ضرورت دیکھیں
اس بات کا بھی پچھتاوا ہے کہ اتنے دن میں، کیسے کسی قلم کار دوست کی ضرورت کو فراموش کرگیا۔ کتنا مجبور ہوں۔ شاعر، قلم کار کا بھرم بھی رکھنا ہے۔ اس سے معذرت کرکے، اس کی مدد بھی کرنی ہے۔ کیا میں ڈھلتی عمر کے اس دوست کو، اب یہ مشورہ دوں کہ ’’وہ بھی ہجرت‘‘ کرجائے۔ یہاں، اب دوستوں کے کام آنے والے مزید کم ہوں گے۔ کیونکہ یہاں ریاست مدینہ کی تعمیر میں انسانوں کو بطور ’’سریا‘‘ گاڑا جارہا ہے۔ بچے اور بچیاں، اس کا خام مال ہوں گے۔ پاکستان میں ’’چنگیزی ریاست‘‘ بن کے رہے گی۔ ریاست ماں کے جیسی نہیں رہی۔ وہ ’’ڈریکولا‘‘ بنتی جارہی ہے۔ اب عوام کا خون، مٹیریل مکسنگ کے لئے استعمال ہوگا۔ یہاں اب اور طرح کے عذاب اتریں گے۔ ہر طرف منافقت کا اندھیرا پھیلتا جارہا ہے۔ مگر جو مزاحمت کررہے ہیں۔ انھیں مل کر لڑنا ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔ (ناصر جمال)۔۔