بلاگ: بادشاہ خان
دنیا بھر میں ریاست کا چوتھا ستون صحافت کو کہا جاتا ہے ، اور صحافی ریاست ،حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کا احترام اور اس کی آواز کو نقارہ خلق سمجھا جاتا ہے ،اسے دبایا نہیں جاتا ، ریاستی و صحافتی اخلاقیات و حدود کے اندر ہر قسم کی رپورٹنگ تجزیے،تبصرے ،کالم اور تنقید کو مثبت انداز میں لیا جاتا ہے ، اس پر فیصلے کئے جاتے ہیں، لیکن افسوس پاکستان میں کسی بھی دور حکومت میں ایسا نہیں ہوا، ہر حکمران کی خواہش رہی ہے کہ اس کے سفید کو سفید اور سیاہ کو صحافی سیا ہ قرار دے، جس پر پاکستان کے صحافیوں نے کافی قربانیاں بھی دیں ، پاکستان میں جب بھی صحافتی جدوجہد کی بات کی جائے گئی، تو کراچی پریس کلب کا نام صف اول پریس کلبوں میں آئے گا ،تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، ایک بار پھرکراچی پریس کلب کے صحافیوں کا احتجاج جاری ہے ، کراچی پریس کلب میں سادہ لباس میں ملبوس مسلح افراد سرکاری اہلکاروں کے داخلے کے بعداور اس کے چوبیس گھنٹوں کے اندر کراچی پریس کلب کے سینئر ممبر نصراللہ چوہدری کو گھر کی دہلیز سے اٹھا کر لے جانا ، اور اس پرچار روز سے جاری احتجاج ،ایک بار پھر صحافتی جدوجہد کی گھڑی ہے ، خوشی کی بات یہ ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کراچی کے صحافی ایک ہیں ،ٹھیک کہا ہے کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک کہ نئی حکومت کے دور میں غریب صحافی کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ۔ پاکستان کے متعبر ادارے اور جمہوریت کی علامت سمجھنے والے کراچی پریس کلب کے تقدس کو پامال کیاگیا جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ اور سینئر صحافی نصراللہ چوہدری کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، کراچی پریس کلب کی 60 سالہ تا ریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہیں جس میں کسی سرکاری ایجنسی کے افراد اس طرح کلب میں داخل ہوئے ہوں۔1958 میں قائم ہونے کے بعد سے آج تک پریس کلب کے سامنے کئی احتجاج ہوئے ہیں اور کئی بڑے سیاسی اور سماجی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ کراچی پریس کلب اور اس کے ممبران نے کئی آمریتیں بھگتائی ہیں اسی پریس کلب سے کام کرکے یا باہر احتجاج کرکے ۔ لیکن کبھی بھی پولیس یا مسلح افراد یہاں داخل نہیں ہوئے ہیں۔ اس جگہ کا تقدس اپنی جگہ ہے جو ہم کسی کو پامال نہیں کرنے دے سکتے ۔‘ایک درجن افراد پر مشتمل یہ ٹیم لینڈ کروزر اور ویگو گاڑیوں میںسادہ لباس میں ملبوس مسلح افراد کراچی پریس کلب میں داخل ہو نا ، مسلح اہلکاروں کا پریس کلب اور ممبران کی ویڈیو بھی بنانا۔ ممبران کی مداخلت پر مسلح افراد فرار ہو نا ۔ مسلح اہلکار کا خودکو سرکاری اہلکار قرار دینا ۔ کلب انتظامیہ پریس کلب میں مسلح افراد کا داخلہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کوشش آخر اس کے پس منظر میں کیاہے؟ ۔
دوسری جانب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے سیکرٹری جنرل سہیل افضل خان ،اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل شعیب احمد اور اراکین مرکزی مجلس عاملہ نے کراچی پریس کلب میں نامعلوم مسلح افراد کے زبردستی داخلے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ، اعلی حکام سے اس واقعے کا فی الفور نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ کراچی پریس کلب پر احتجاجی کیمپ کاافتتاح سیکریٹری کراچی پریس کلب مقصود یوسفی نے کیا،سینئیر صحافی اور پی ایف یو جے کے رکن جاوید اصغر چوہدری،سیکریٹری کے یو جے حامد الرحمن ،ممبر کراچی پریس کلب شاہد غزالی ،ممبر کے یو جے سعید جان بلوچ،سابق سیکریٹری کراچی پریس کلب عامر لطیف اور سیکریٹری جنرل پی ایف یو جے دستور سہیل افضل خان سمیت رضوان بھٹی،ثاقب صغیر،نعمت خان سمیت دیگر نے خطاب کیا،مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ تین دن قبل کراچی پریس کلب پر مسلح سرکاری اہلکاروں کے دھاوے اور پریس کلب کے تقدس کو پامال کرنے کے شرمناک واقعے پر احتجاج کرنے کرنے والے صحافیوں ہراساں کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔
کراچی پریس کلب عظیم روایتوں کا امین ہے، اس کی چاردیواری اگر محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہے؟ سوال یہ ہے کہ اگر نصراللہ چوہدری پر کوئی الزام یا کیس ہے تو عدالتیں ہیں ،ان میں پیش کیا جائے ،غائب کرنے سے کون ریاست پر اعتماد کرے گا ، اگر صحافی اپنی جدوجہد کےلئے ایک نہیں ہوسکتے تو پھر کیا وہ ریاست، حکومت ،اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے اہل ہیں ، کراچی پریس کلب اور ان کے رہنماوں کے بلند حوصلے کو میں سلام پیش کرتا ہوں ، ڈٹ جانے اور مضبوط موقف نے اس عظیم پریس کلب کا نام ایک بار پھر دنیا بھر میں روشن کردیا ہے ،سوال یہ کہ پاکستان میں صحافت اور صحافی کا کیا ہوگا ؟قلم کے مزدور اس پر اپنی رائے جس حد تک اور جس فورم تک ممکن ہو عام کریں کیونکہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے ، پاکستان کی آواز کا مسئلہ ہے ،ماضی میں بھی دبانے کی کوشش کی گئی مگر جو ڈٹ گئے وہی امر ہوگئے۔