تحریر: میم سین بٹ
لاہور پریس کلب کے نائب صدر امجد عثمانی کی چیئرمین شپ میں لائبریری کمیٹی بنیادی طور پر کلب کی بابا ظہیر کاشمیری لائبریری کی حالت سنوارنے کے لئے بنائی گئی تھی رواں سال چونکہ کلب کی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی تھی لہذا طارق کامران کی تجویز پر لائبریری کمیٹی کے تحت ادبی تقریبات کروانے کا بھی پروگرام بنایا گیا تھا ماضی میں بھی کلب کی لائبریری کمیٹی ادبی تقریبات کرواتی رہی تھی لہذا گزشتہ دنوں طارق کامران نے پریس کلب لائبریری میں سینئرشوبز صحافی سیدساجد یزدانی کے اعزاز میں تقریب رکھ دی تھی سید ساجد یزدانی کا تعلق معروف صحافی خاندان سے ہے ان کے والد سید یزدانی (مرحوم) مشہور صحافی ، ادیب ، شاعر ، فلمی گیت نگار اور ہدایت کار رہے تھے ان کے ایک صاحبزادے حامد یزدانی شاعر اور براڈکاسٹر جبکہ باقی چارصاحبزادے خالد یزدانی ، ساجد یزدانی ، ماجد یزدانی اور راشد یزدانی صحافی اور لاہور پریس کلب کے لائف ممبر ہیں ، خالد یزدانی کے صاحبزادے عمران یزدانی بھی صحافی ہیں مگر پریس کلب کے رکن نجانے ابھی تک کیوں نہیں بن سکے سید ساجد یزدانی کے اعزاز میں تقریب صدر محفل فلمی ہدایت کار سید نور اور مہمان خصوصی سینئر شوبز صحافی طاہر سرور میر کی آمد کے باعث پر رونق ہوگئی میزبان چیئرمین لائبریری کمیٹی اور پریس کلب کے نائب صدر امجد عثمانی نے سیدنورکی زیر صدارت تقریب باقاعدہ شروع کروائی تو لائبریری کمیٹی کے رکن سلمان رسول کی تلاوت کے بعد سٹیج سیکرٹری طارق کامران نے ساجد یزدانی کے بارے میں تعارفی کلمات کے بعد آفتاب خان کو اظہارخیال کی دعوت دے دی ۔
آفتاب خان نے بتایا کہ وہ رازداں کے نام سے چھپنے والا فلمی کالم پڑھا کرتے تھے کسی نے بتایا کہ اسے ساجد یزدانی لکھتے ہیں پھر فلمی سٹوڈیو میں ہی ان سے ملاقات بھی ہوگئی اور ان سے تعلق اب تک برقرار ہے اس دوران دونوں اکٹھے فلم سٹوڈیوز اور تقریبات میں جاتے رہے ، آفتاب خان نے کہا کہ ساجد یزدانی صاحب سچی اور کھری صحافت کرتے ہیں انہوں نے نصف صدی کے دوران لاتعداد فکمی شخصیات کے انٹرویوز کئے شہزاد فراموش نے بتایا کہ پریس کلب لائبریری میں ہی وہ حلقہ ادب و صحافت کی نشستوں میں ساجد یزدانی صاحب کو بطور مہمان خصوصی بلاتے رہے ہیں ان سے صدارت بھی کرواتے رہے ہیں انہوں نے سٹیج ڈرامے بھی پروڈیوس کئے فلموں کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی رہے ہیں ، پریس کلب کے ممبر گورننگ باڈی سید بدر سعید نے سید ساجد یزدانی کے اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جونیئرز کو آگے بڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں وہ جب علی سفیان آفاقی کی زیرادارت فیملی میگزین میں کام کرتے تھے تو ساجد یزدانی صاحب ان کی بہت رہنمائی کیا کرتے تھے وہ انہیں اپنے اساتذہ میں شمار کرتے ہیں ۔
جاوید آفتاب نے کہا کہ فلمی صحافت میں ساجد یزدانی اہم نام ہیں فلمی اخبارات و رسائل میں انہیں پڑھتے رہے ان کی فلمی ڈائری ، فلمی تبصرے اور انٹرویوز کو کتابی صورت میں شائع ہونا چاہیے ، ساجد ارائیں نے ساجد یزدانی کو نئے لکھنے والوں کے لئے کتب مینار قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ لڑکپن سے انہیں فلمی رسائل میں پڑھتے چلے آ رہے ہیں ، ظہیر شیخ نے بتایا کہ انہوں نے فدااحمد کاردار ، ندیم سلیمی اور ساجدیزدانی کے بعد فلمی صحافت شروع کی تھی انہیں ان سینئرز کے سرپرستی حاصل رہی تھی اپ فلمی صحافت میں جو نئے لوگ آرہے ہیں انہیں ان جیسے سینئرز کی سرپرستی حاصل نہیں ہے ، ساجد یزدانی صاحب اب بھی فعال ہیں اللہ تعالی انہیں مزید برسوں تک فعال رکھے ، طاہر اصغر نے کہا کہ ساجدیزدانی صاحب نے اپنے والد مرحوم کے کام کو آگے بڑھایا وہ انہیں ربع صدی سے جانتے ہیں یہ پہلے کی طرح آج بھی جوان ہیں ، طاہر اصغر نے اعتراض کیا کہ ساجد یزدانی صاحب کے اعزاز میں لائبریری کے بجائے ہال میں تقریب رکھنی چاہیے تھی ، احتشام سہروردی نے کہا کہ لاہور نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ مثبت صحافت کی ان کے پاس معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔
مشفق راٹھور المعروف ٹھاکر لاہوری نے بتایا کہ ان کاساجد یزدانی صاحب سے بعد میں تعلق قائم ہوا پہلے وہ ان کے بھائی ماجد یزدانی صاحب کو جانتے تھے جو اخبار کے نیوز روم میں ان کی خبروں کو نمایاں طور پر شائع کیا کرتے تھے پھر ٹھاکر لاہوری جب خود بھی فلمی صحافت میں آگئے تو طاہر سرور میر اور محسن جعفر کے ساتھ ساجد یزدانی صاحب سے بھی متعارف ہوئے جو سب سے سینئر شوبز صحافی ہیں ان کے لکھنے اور بولنے کا انداز بہت اچھا ہے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ملناچاہیے ، ایک دانشور نے کہا کہ ساجد یزدانی کی شخصیت بہت پرخلوص ہے یہ دھیمے مزاج کے انسان ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی اور شہرت دے ، اداکارگوشی خان بتایا کہ ساجد یزدانی صاحب کے سٹیج ڈرامے میں انہیں پہلی بار مرکزی کردار ملا تھا جس کی وجہ سے انہیں شوبز کی دنیا میں آگے بڑھنے کا موقع ملا تھا ساجد یزدانی ، طاہر سرور میر ، ٹھاکر لاہوری اور طاہر بخاری نے انہیں بہت زیادہ شائع کیا ، گوشی خان نے اپیل کی کہ سوشل میڈیا پر غیراخلاقی پروگرام کرنے والی شوبز کی لڑکیوں کا تھیٹر والوں کو بائیکاٹ کرنا چاہیے ، شہباز انورخان نے بتایا کہ سید یزدانی جالندھری مرحوم کے بعد ان کے صاحبزادوں خالد یزدانی ، ساجد یزدانی اور ماجد یزدانی سے بھی ان کا تعلق رہا ہے سید ساجد یزدانی فلمی صحافت کی آبرو ہیں اور سب کو ان پر مان ہے ۔
طاہر سرور میر نے بتایا کہ سید ساجد یزدانی صاحب ان سے بہت سینئر ہیں یہ فلم ، ٹی وی ، تھیٹر سب کی بیک وقت رپورٹنگ کرتے رہے ہیں ان کی بڑی بڑی فلمی شخصیات سے دوستی رہی ان پر کتاب چھپنی چاہیے ساجد ارائیں یہ کام بخوبی کر سکتے ہیں انہوں نے تجویز دی کہ تھیٹر کے دو شعبے ہونے چاہئیں ڈانسنگ تھیٹر الگ ہونا چاہیے ساجد یزدانی کے حوالے سے تقریب کے بارے میں اپنے صحافی دوست طاہر اصغر کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے طاہر سرور میر نے کہا کہ اس تقریب کے لئے پریس کلب میں لائبریری سے بہتر کوئی دوسری جگہ نہیں ہو سکتی تھی ، سید نور نے صدارتی کلمات میں بتایا کہ وہ 1970ء کی دہائی میں صحافت چھوڑ کر فلمی صنعت میں آئے تھے سید ساجد یزدانی صاحب نے فلمی صنعت کے حوالے سے بہت زیادہ لکھا انہوں نے سید ساجد یزدانی کو اپنے سٹوڈیو میں اداکار ندیم سے ایوارڈ دلوایا تھا اداکارہ صائمہ بھی اس موقع پر موجود تھیں اب سید ساجد یزدانی صاحب کو انشاءاللہ پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دلوایا جائے گا (تالیاں )۔
میزبان امجد عثمانی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پریس کلب کی بابا ظہیر کاشمیری لائبریری میں یہ محفل لائبریری کمیٹی کے تحت ہو رہی ہے سید ساجد یزدانی صاحب بہت پیارے آدمی ہیں پریس کلب باڈی کی جانب سے وہ بھی حکومت سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس دیئے جانے کے مطالبہ کرتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ سید نور صاحب اور طاہر سرور میر صاحب کا پریس کلب لائبریری کمیٹی کی تقریب میں آنا بھی ہمارے لئے اعزاز کا باعث ہے ، سید نور صاحب کو بھی لاہور پریس کلب کی اعزازی رکنیت پیش کی جائے گی ، آخر میں سید ساجد یزدانی نے مختصر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو سننے آئے تھے کہ دوست احباب ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں وہ سب دوست احباب کا شکریہ ادا کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ آغاز میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتے تھے اور والد صاحب کے ساتھ رائل پارک میں فلمی رسائ اور ادبی جرائد کے دفاتر جایا کرتے تھے بعدازاں صحافت میں اگئے پھر ان کا فلمی صنعت سے بھی تعلق رہا فلمی کہانیاں لکھیں ، چند فلموں کے معاون ہدایت کار بھی رہے انہوں نے سب سے پہلے روزانہ مساوات میں فلمی کالم لکھنا شروع کیا تھا ، نگار کراچی میں فلمی ڈائری لکھتے رہے ، روزانہ آزاد ، روزنامہ جنگ کے بعد روزنامہ نوائے وقت میں بھی کام کرتے رہے انہیں آج تک واجبات نہیں مل سکے ان کی تین کتابوں کے مسودے تیار ہیں امید ہے کہ ان کی تینوں کتابیں جلد شائع ہو جائیں گی۔(میم سین بٹ)