تحریر: خالد فرشوری
بھائیوں میں نا تو پیپلز پارٹی کا ووٹر ہوں نا سپورٹر، لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا احسان فراموشی ہو گی کہ ہر مرتبہ ہمیں رہائشی پلاٹ اور مالی گرانٹ پی پی پی کے ادوارِ حکومت میں ہی ملتی رہی، ہمارے کچھ با اثر ساتھی ایم کیو ایم کی حمایت یافتہ یو جے کے اسیر ہوئے، تو کچھ نے جماعتِ اسلامی کے مبینہ بینر کی حامل یو جے سے اپنا ناتہ جوڑا(بہت سے غیر جانبدار بھی رہے) مگر بے چاری پیپلز پارٹی ہم پر عنایتوں کی بارش کے باوجود ہم اہلیانِ پریس کلب کی محبوب جماعت کبھی نہ بن سکی، بلکہ ہمیشہ ایک غیریت والے رشتے سے نبرد آزما رہی، اس میں یقینا” پی پی پی کی مقامی قیادت کی کوتاہیاں بھی شامل رہی ہوں گی، مگر یہ بات طے ہے کہ زبانی جمع خرچ اور ظاہری محبتیں نچھاور کرنے والی ہماری ہوشیار نندوں یعنی ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی والا پیار ہم نے کراچی پریس کلب کی اس خالہ زاد بہن کو نہیں دیا جس نے ہر برے وقت میں دامِ درھمِ سخنِ اور قدمے ہماری داد رسی کی، مجھے یاد ہے، پیپلز پارٹی کی ایک سابق صوبائی وزیرِ اطلاعات نے، ایک بار کسی گرانٹ کے عوض، اپنے کچھ ہمدرد ، ہم خیال رپورٹرز کو پریس کلب کی ممبر شپ دلوانے کے لیے ایک فہرست اس وقت کے صدر، سیکریٹری کو ڈرتے ڈرتے پیش کی تھی،جس پر ہم بہت چراغ پا ہوے تھے اور ہمیں سارے ضابطے، سب قانون یاد آگئے تھے، اوّ ل تو پریس کلب یا صحافیوں کو کسی مخصوص سیاسی جماعت کے زیرِ اثر ہونا ہی نہیں چاہیئے، مگر دوئم یہ کہ، عملی طور پر کلب دوست سیاسی جماعتوں سے فاصلے گھٹانے کی کوشش بھی کرنی چاہیئے۔پریس کلب میں سندھی مہاجر پختون بلوچ یا برنا اور دستوری کی اونچ نیچ سے بالا تر ہو کر دیکھنا پڑے گا، آنے والے کراچی پریس کلب کے الیکشن میں کوئی سیاسی رنگ نظر نہ آئے ایسا سوچنا تو فی الحال بعید از قیاس ہے، لیکن آؤ سن دو ہزار پچیس کے آئیڈیل کے پی سی الیکشن کی تیاری کے لیے آج سے اکیلے بیٹھ کر سوچنا شروع کرتے ہیں۔دعا گو۔۔( خالد فرشوری)۔۔