تحریر: منصورمانی
کراچی پریس کلب کی رکنیت ایک اعزاز ہے۔ میں کراچی یونین آف جرنلسٹ دستور کا حصہ ہوں۔ جو احباب مجھے جانتے ہیں وہ اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ دستور کی قیادت نے کبھی میرے نظریات کی بنیاد پر مجھے پیچھے نہیں کیا۔ نظریات میں اختلاف کے باوجود ہمیشہ عزت دی اور رائے کو اہمیت دی۔گذشتہ دنوں سننے میں آیا کہ کراچی پریس کلب پر ایک مذہبی جماعت کا قبضہ ہے۔ سن کر ہنسی آئی کے یہ کیسا قبضہ ہے (اگر ہے تو) جو مذہب ۔سیاست۔لسانی تفریق سے بالاتر ہو کر رکنیت اعزاز کر رہا ہے۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے آپ کی رکنیت نہ ہو سکی ہو جیسے گذشتہ وقت میری نہیں ہو پائی تھی۔۔ ہو سکتا اگلی بار ہو جائے جیسے میری ہو گئی۔۔لیکن ایک رکنیت کو لے کر پریس کلب کے خلاف مہم چلانا کچھ ایسے محسوس ہو رہا ہے کے جیسے در پردہ اس مہم کے کوئی اور ہے کوئی ایسا جو یہ چاہتا ہے کہ صحافی متحد نہ رہیں اور کسی طرح پریس کلب کو متنازعہ بنا دیا جائے صحافت اور کراچی پریس کلب جو کہ ایک استعارہ ہے جمہوریت اور باطل کے خلاف آواز کا اس کو دبا دیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں ہمارے سینئر چایے برنا سے ہوں یا دستور سے کراچی پریس کلب کی تقدیس کے لیے متحد ہیں۔ میں نہیں جانتا جعلی صحافی کون ہے اور اصلی کون لیکن میں یہ جانتا ہوں کے الزام لگانا دنیا کا سب سے آسان کام یے آپ صحافی ہیں جانتے ہوں گے مدیر اس وقت تک خبر نہیں چھاپتا جب تک آپ خبر کے ثبوت اسے دکھا نہ دیں! مجھے افسوس ہے کہ اس طرز عمل سے سوشل۔میڈیا۔میں ایک عام آدمی صحافی کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کر رہا اور کہیں نہ کہیں اس کے ذمےدار آپ ہیں۔کوشش کریں اگر آپ صحافی ہیں تو اس چیز سے باہر نکلیں اور اگر آپ صحافی نہیں تو بے شک ملک کے با اثر ترین افراد بھی آپ کو رکنیت نہیں دلوا سکتے کیوں کہ رکنیت کا فیصلہ ایک فرد نہیں بورڈ کرتا ہے لگاتار کئی ماہ کی مشاورت کے بعد اس میں دستور اور برنا دونوں کے سینئر شامل ہوتے ہیں۔
نوٹ احتجاج کرنے والوں سے گزارش ہے پلے کارڈ اور بیک اسکرین بناتے وقت املا اور اردو قواعد کا خیال رکھیں سوشل میڈیا پر مذاق بنتا ہے۔۔۔(منصور مانی،ایک جعلی صحافی)۔۔