aik tabah saath | Imran Junior

پراٹھہ۔کول۔۔

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو، پروٹوکول کی اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن جب ’’پراٹھا۔کول‘‘ یعنی (پراٹھا نزدیک) ہوتو انسان کھانے کے دوران سارے پروٹوکول بھول جاتا ہے۔۔ گزشتہ دنوں کپتان کے پروٹوکول کے بغیر اسلام آباد کی مارکیٹ کے دورے کا بڑا چرچا ہوا، اور اس چرچے کو ’’وائرل‘‘ کرنے میں سنا ہے بہت خرچا بھی ہوا۔۔ ہمارے ایک معزز دوست نے ہمیں اس حوالے سے ایک دلچسپ روداد بھیجی ہے، ہمیں اچھی لگی تو سوچا کیوں نہ آپ لوگوں سے شیئر کرلی جائے۔۔ ہمارے دوست لکھتے ہیں کہ ۔۔وزیر اعظم نے گوشت مارکیٹ کا دورہ کیا انتہائی صاف و شفاف مارکیٹ میں چہل قدمی کرتے ہوئے وزیراعظم ایک قصائی کے پاس جاکر کھڑے ہوئے اور ان سے بات چیت کے بعد ان کے پاس موجود صاف و شفاف گوشت دیکھ کر تعریف کی اور پوچھا گوشت تو خوب بکتا ہوگا؟؟قصائی کہنے لگا۔۔ گوشت تو واقعی اچھا ہے لیکن آج ابھی تک صبح سے ایک کلو بھی فروخت نہیں ہوا۔۔ وزیراعظم نے جب گوشت فروخت نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو قصائی کہنے لگا۔۔کیونکہ آپ کے آنے کے سبب خریداروں کو مارکیٹ آنے ہی نہیں دیا گیا ۔۔وزیراعظم نے قصائی کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ اوہو، گھبرانا نہیں ہے، میں تم سے چار کلو گوشت خریدوں گا۔۔قصائی نے تحمل سے پوری بات سننے کے بعد کہا۔۔لیکن سر، میں آپ کو گوشت نہیں دے سکتا۔۔وزیراعظم نے حیرت سے سوال کیا۔۔وہ کیوں؟؟ قصائی بولا۔۔کیونکہ آپ کی حفاظت کے لیے ہم سے چھریاں لے لی گئی ہیں۔۔وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ تو تم بغیر کاٹے بھی مجھے دے سکتے ہو۔۔قصائی نے کہا۔۔نہیں سر، میں پھر بھی آپ کو گوشت نہیں دے سکتا۔۔وزیراعظم نے حیرت سے پوچھا، وہ کیوں؟؟۔۔قصائی کہنے لگا۔۔کیونکہ میں سیکیورٹی ادارے کا آفیسر ہوں،قصائی نہیں۔۔وزیراعظم نے غصے سے کہا۔۔جاؤ، فوری طور پر اپنے سینئر آفیسر کو بلا کر لاؤ۔۔قصائی کھسیانا ہوکر بولا۔۔سوری سر، ایساممکن نہیں فی الحال۔۔ وزیراعظم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔ وہ کیوں؟؟ قصائی مسکرا کربولا۔۔کیونکہ سامنے والی دوکان پر وہ پھل فروش بن کر کھڑے ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ چل رہا ہے۔۔ یہ عشرہ جہنم سے نجات کا عشرہ کہلاتا ہے۔۔رمضان میں روزے داروں کا جسم کن حالات کا شکار رہتا ہے، ہمارے پیارے دوست نے ہم سے دلچسپ معلومات شیئر کی ہیں۔۔وہ لکھتے ہیں کہ۔۔پہلے دو روزوں کے دوران پہلے ہی دن بلڈ شگر لیول گرتا ہے یعنی خون سے چینی کے مضر اثرات کا درجہ کم ہو جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن سست ہو جاتی ہے اور خون کا دباؤ کم ہو جاتا یعنی بی پی گر جاتا ہے۔اعصاب جمع شدہ گلا کوجن کو آزاد کر دیتے ہیں جس کی وجہ جسمانی کمزوری کا احساس اجاگر ہو جاتا ہے۔ زہریلے مادوں کی صفائی کے پہلے مرحلہ میں سر درد۔ چکر آنا۔ منہ کا بد بودار ہونا اور زبان پر موادجمع ہونے کی شکایات رہتی ہیں۔۔تیسرے سے ساتویں روزے کے دوران۔۔جسم کی چربی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اور پہلے مرحلہ میں گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کی جلد ملائم اور چکنی ہو جاتی ہے۔ جسم بھوک کا عادی ہونا شروع کرتا ہے اور اس طرح سال بھر مصروف رہنے والا نظام ہاضمہ رخصت مناتا ہے جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔ خون کے سفید جرثومے اور قوت مدافعت میں اضافہ شروع ہو جا تا ہے۔ ہو سکتا ہے روزے دار کے پھیپڑوں میں معمولی تکلیف ہو اس لیے کہ زہریلے مادوں کی صفائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ انتڑیوں اور کولون کی مرمت کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ انتڑیوں کی دیواروں پر جمع مواد ڈھیلا ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔آٹھویں سے پندرھویں روزے میں آپ پہلے سے توانا محسوس کرتے ہیں۔ دماغی طور پر چست اور ہلکا محسوس کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے پرانی چوٹ اور زخم محسوس ہو نا شروع ہوں۔ اس لیے کہ اب آپ کا جسم اپنے دفاع کے لیے پہلے سے زیادہ فعال اور مضبوط ہو چکا ہے۔ جسم اپنے مردہ یا کینسر شدہ سیل کو کھانا شروع کر دیتا ہے جسے عمومی حالات میں کیموتھراپی کے ساتھ مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے خلیات سے پرانی تکالیف اور درد کا احساس نسبتا بڑھ جاتا ہے۔اعصاب اور ٹانگوں میں تناؤ اس عمل کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ قوت مدافعت کے جاری عمل کی نشانی ہے۔روزانہ نمک کے غرارے اعصابی اکڑاؤکا بہترین علاج ہے۔سولھویں سے تیسویں روزے تک جسم پوری طرح بھوک اور پیاس کو برداشت کا عادی ہو چکا ہے۔ آپ اپنے آپ کو چست۔ چاک و چو بند محسوس کرتے ہیں۔ان دنوں آپ کی زبان بالکل صاف اور سرخی مائل ہو جاتی ہے۔ سانس میں بھی تازگی آجاتی ہے۔ جسم کے سارے زہریلے مادوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ نظام ہاضمہ کی مرمت ہو چکی ہے۔ جسم سے فالتو چربی اور فاسد مادوں کا اخراج ہو چکا ہے۔بدن اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بیس روزوں کے بعد دماغ اور یاد داشت تیز ہو جاتے ہے۔ توجہ اور سوچ کو مرکوز کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ بدن اور روح تیسرے عشرے کی برکات کو بھر پور انداز سے ادا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ہمارے کپتان کا دعویٰ ہے کہ وہ مغرب کوہم سے (تمام پاکستانیوں) زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔باباجی فرماتے ہیں۔۔میں بتاتا ہوں، ہم میں اور مغرب میں کیافرق ہے؟؟ ۔۔ہمارے ہاں امام ضامن ہوتا ہے،انکے ہاں نظام ضامن ہوتا ہے۔۔ہمارے ہاں سائیں ہوتے ہیں،انکے ہاں سائنس ہوتی ہے۔۔انکے ہاں تحقیق ہوتی ہے،ہمارے ہاں تضحیک ہوتی ہے۔۔ان کے ہاں بجلی ہوتی ہے،ہمارے یہاں کھجلی ہوتی ہے۔۔انکے ہاں سوچ ہوتی ہے،ہمارے ہاں ایک دوسرے کی کھوج ہوتی ہے۔۔ ان کے یہاں لوگ کام،عبادت کی طرح کرتے ہیں، ہمارے ہاں لوگ عبادت بھی سرکاری کام کی طرح کرتے ہیں۔۔ وہ لوگ جفا کش ہوتے ہیں،ہم لوگ وفا کش ہوتے ہیں۔۔وہ لوگ وطن سے محبت کرتے ہیں،ہم لوگ وطن کی تجارت کرتے ہیں۔۔ہمارے ہاں تعداد ہوتی ہے،انکے ہاں استعداد ہوتی ہے۔۔انکے پاس ہر ایک مسئلہ کا حل ہوتا ہے،ہمارے پاس ہر حل کے لیے ایک مسئلہ ہوتا ہے۔۔ وہ شجرکاری کرتے ہیں، ہم کاروکاری اور سارا دن بے کاری کرتے ہیں۔۔انکے وزیرِاعظم کا گھر کسی ایک گلی میں ہوتا ہے،ہمارے وزیرِاعظم کے گھر میں کئی گلیاں ہوتی ہیں۔۔وہ کائنات کو تسخیر کر رہے ہیں،ہم کائنات کو بے توقیر کررہے ہیں۔۔وہ تدبر کرتے ہیں،ہم تکبر کرتے ہیں۔۔وہ محنت کرتے ہیں، ہم محبت کرتے ہیں۔۔ وہ نااہلوں، کرپٹ لوگوں کی گوشمالی کرتے ہیں اور ہم ’’مغرب‘‘ کی نماز پڑھیں نہ پڑھیں،مغرب کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔فجر اور مغرب کے اوقات کی جتنی پابندی مچھر کرتے ہیں اتنی آج کل نمازی بھی نہیں کرتے ہاں روزے دار ضرور کرتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں