punjab kpc noon league ka mustaqbil makhdoosh hai

پالیسیاں بدلنا ہوں گی، سہیل وڑائچ۔۔

چند دن بعد ہونے والے الیکشن کے2منظر نامے ہیں سب کچھ ریاست کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے تو نواز شریف کو وفاقی حکومت ملے گی۔ فرض کریں نتائج ریاست کی مرضی کے خلاف آتے ہیں تو ریاست اور تحریک انصاف میں ایک نیا مقابلہ ہوگا، کشمکش ہوگی، ہوسکتا ہے تشدد ہو، مظاہرے ہوں۔ لیکن کیا ریاست، اگر پی ٹی آئی جیت بھی جائے تو اسے اقتدار دے گی؟ سینئر صحافی و تجزیہ کار  سہیل وڑائچ نے اہم سوالات اٹھا دیئے۔جنگ ” میں شائع ہونیوالے تازہ کالم میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ آج کل  تحریک انصاف  پر سختی کا دور ہے، سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں ہیں، سزاؤں پر سزائیں ہو رہی ہیں اور فی الحال انہیں ریلیف ملنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔8فروری کے الیکشن چند دن دور ہیں، کیا ہمیں بحیثیت قوم سوچنا نہیں چاہئے کہ 75سال کے تجربوں سے کیا ہم ترقی کر رہے ہیں یا زوال کا شکار ہیں؟ چند دن بعد ہونے والے الیکشن کے2منظر نامے ہیں اگر سب کچھ ریاست کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے تو نواز شریف کو وفاقی حکومت ملے گی۔ فرض کریں کہ نتائج ریاست کی مرضی کے خلاف آتے ہیں تو ریاست اور تحریک انصاف میں ایک نیا مقابلہ ہوگا، کشمکش ہوگی، ہوسکتا ہے تشدد ہو، مظاہرے ہوں۔ لیکن کیا ریاست، اگر پی ٹی آئی جیت بھی جائے تو اسے اقتدار دے گی؟ 1979ءکے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی اکثریت عوام دوست کے نام سے جیت گئی تھی، ریاست نے سب کو نااہل کروا دیا۔ جنرل مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی کے پاس اکثریت آ گئی تھی پیٹریاٹ بنا کر اقتدار (ق) لیگ کو دے دیا گیا۔ 2018ء میں پنجاب میں (ن) لیگ کے پاس اکثریت تھی مگر آزاد تحریک انصاف میں شامل کرکے اقتدار تحریک انصاف کو دے دیا گیا، اگر کوئی معجزہ نہ ہوا یا کوئی انقلاب نہ آیا تو ریاست کی مرضی ہی چلے گی چاہے یہ مرضی کتنی بھی غیر مقبول کیوں نہ ہو۔ سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ اب اس مفروضے پر غور کرتے ہیں کہ ریاست کی مرضی کی حکومت تو آ جائے گی مگر کیا وہ لانگ ٹرم میں ریاست کی مرضی پر چل پائے گی یا نہیں؟ اگر نہ چلی تو پھر سے ایک نئی گڑ بڑ شروع ہو جائے گی۔ دوسری طرف اپوزیشن کے کردار کے بغیر کوئی ریاست یا حکومت نہیں چل سکتی۔ ریاست کو تحریک انصاف ہو یا باغی بلوچ ،ان کا مستقل حل سوچنا چاہیے۔ ریاست وقتی طور پر انہیں دبالے گی، ڈرا بھی لے گی، لیکن کیا اس سے ایک اچھا ترقی پسند اور خوشحال معاشرہ قائم ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں۔  آخر میں  سہیل وڑائچ نے لکھا کہ  اگر سیاسی استحکام نہیں آتا تو معاشی استحکام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معاشی استحکام نہ ہو تو فوج بھی مضبوط نہیں رہ سکتی، اگر ریاست کے پاس پیسے ہی نہ ہوں تو فوج جدید ہتھیار کہاں سے خریدے گی۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈر عدالتی سزاؤں سے کمزور نہیں مضبوط ہوتے ہیں، انہیں صرف بہتر کارکردگی اور اخلاقی برتری حاصل کرکے شکست دے جاسکتی ہے۔  الیکشن کے دن یا پھر بعد میں مرضی کے نتائج حقائق نہیں بدلیں گے، حقائق بدلنے ہیں تو پالیسیاں بدلنی پڑیں گی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں