تحریر: مبشر علی زیدی۔۔
دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ زیادہ اور مہنگے اشتہار اس نیٹ ورک کو ملتے ہیں جس کی ریٹنگ زیادہ ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کو ریٹنگ کی خاطر نامعقول فیصلے کرنے پڑتے ہیں کیونکہ یہ کروڑوں اور اربوں کا معاملہ ہوتا ہے۔ صرف پاکستان نہیں، دنیا بھر میں ریٹ ریس ہوتی ہے۔
میں ریٹ ریس جیتنے کی کوشش میں کیے گئے چار اہم فیصلے گنوا سکتا ہوں۔
پہلا فیصلہ خبر جلدی دینے کا تھا۔ اسے مثبت سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ نیوز میڈیا کا بنیادی فرض خبر دینا ہے لیکن مسائل وہاں ہوئے جب جلدی کی کوشش میں غلط خبریں نشر ہوئیں۔ کبھی حادثے میں زیادہ ہلاکتیں بیان کی گئیں اور بعد میں تعداد کم کرنا پڑی۔ کبھی دھماکے کی خبر چلائی گئی اور بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دہشت گردی نہیں تھی۔ میرے سامنے کئی بار گھبراہٹ میں فون ملاکر براہ راست نشریات میں اینکر سے بات کروائی گئی تو پتا چلا کہ نمبر غلط ملایا گیا۔ ناول نگار محمد حنیف کی جگہ محکمہ موسمیات کے محمد حنیف آن ایئر چلے گئے اور تجزیہ کار طلعت حسین کے بجائے ٹی وی اداکار طلعت حسین کا بیپر لے لیا گیا۔
دوسری دوڑ ایونٹس کی براہ راست کوریج نشر کرنے کی تھی۔ پہلے آئی پی ٹی اور اسی طرح کے ذرائع سے لائیو ویڈیو بھیجی جاتی تھی۔ پھر سیٹلائٹ وین یعنی ڈی ایس این جی آئی۔ کارڈلیس کیمرے خریدے گئے۔ ایک شہر میں دو سیٹلائٹ وین والے ہار جاتے تھے اور چار ڈی ایس این جیز والے جیت جاتے تھے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ آپ کتنا اہم ایونٹ کور کررہے ہیں۔ زور اس بات پر ہوتا تھا کہ لائیو نشر کریں۔
اس دور میں یہ ہوا کہ شہباز شریف کی پریس کانفرنس براہ راست دکھانا شروع کی اور پانچ منٹ دکھائی۔ ابھی وہ کام کی بات نہیں کر پائے کہ آپ نے چودھری شجاعت کی پریس کانفرنس دکھانا شروع کردی۔ وہ ابھی سلام دعا کررہے تھے کہ آپ نے مولانا فضل الرحمان کا جلسہ دکھانا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے سب لائیو دکھادیا لیکن کسی کا اصل مدعا نشر نہیں ہوتا تھا۔
جب سب کے پاس سیٹلائٹ وینز آگئیں تو ریٹنگ حاصل کرنے کا ایک اور نسخہ ڈھونڈا گیا۔ نیوز منیجرز کو تحقیق سے معلوم ہوا کہ بریکنگ نیوز کا میوزک نشر ہونے سے عوام متوجہ ہوجاتے ہیں۔ ریٹنگ تھوڑی سی اوپر چلی جاتی ہے۔ چنانچہ بلیٹن پروڈیوسرز کو ہدایت کی گئی کہ ہر اہم غیر اہم خبر بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کی جائے۔ لال ڈبا مسلسل حرکت میں رہے۔ ابتدا میں ایسا ہر نئی خبر کے ساتھ کیا گیا۔ بعد میں پرانی خبریں بھی اسی طرح نشر کی جانے لگیں۔ حد یہ کہ صبح نو بجے کی خبر رات نو بجے بھی اسی طرح پیش کی جانے لگی۔
جب ہر چینل نے ایک جیسے ریڈ بکس چلانے شروع کردیے تو ماہرین نے ریٹنگ چارٹس کو مزید غور سے دیکھا۔ انھیں اندازہ ہوا کہ بہت سے لوگ ہیڈلائنز دیکھتے ہیں اور بلیٹن شروع ہونے سے پہلے چلے جاتے ہیں۔ اب فیصلہ ہوا کہ ہیڈلائنز طویل کی جائیں۔ پندرہ سال پہلے ہیڈلائنز ایک منٹ میں ختم ہوجاتی تھی اور اس میں پانچ خبریں ہوتی تھیں۔ ایک وقت ایسا آیا کہ ہیڈلائنز آدھے گھنٹے چلتی رہتی تھیں اور پچیس پچیس خبریں شامل ہوتی تھیں۔ میں نے ایسے بہت سے بلیٹن پروڈیوس کئے جن میں ہیڈلائنز اور اشتہار چلانے کے بعد کوئی خبر نشر کرنے کا وقت نہیں رہا۔
مجھے پاکستانی میڈیا سے دور ہوئے دو سال ہوچکے ہیں اس لیے تازہ فیصلوں کے بارے میں نہیں جانتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں میڈیا کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور ریٹ ریس پہلے جیسی نہیں رہی۔ اب جو لال ڈبے اور لمبی ہیڈلائنز باقی ہیں، انھیں اچھے وقتوں کی یادگار سمجھیں۔ نیوز چینل اب مقابلے کے بجائے ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر تیار ہیں۔ بلکہ میں نے سنا ہے کہ چینل مالکان ایونٹس کی پول کوریج کے بارے میں سوچ رہے ہیں تاکہ اخراجات گھٹائے جاسکیں۔(مبشرعلی زیدی)۔۔