تحریر: علی حسن۔۔
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کے 55سال مکمل کر چکی ہے۔ وفاق میں چار بار وزارت عظمی اس کے پاس رہی، ایک بار پاکستان کی صدارت اس کے پاس رہی، صوبہ سندھ کی وزارت عظمی سن2008 سے مسلسل اس کے پاس ہے۔ اس سے قبل بھی 1970 وزارت آعلی اس کے پاس رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود کیا پیپلز پارٹی پاکستانی عوام کی توقعات پوری کر سکی۔ حد تو یہ ہے کہ پارٹی سندھ کے کسانوں کے لئے پہلے سے نافذ قانون ٹیننسی ایکٹ پر عمل در آمد کرانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ہاریوں کی حالت ویسی ہی ہے جیسی 1970 سے قبل تھی۔ پارٹی کے قیام کے وقت پارٹی قائم کرنے والے مختلف الخیال سیاسی رہماﺅں اور کارکنوں نے دعوی کیا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ پارٹی کے قیام کے وقت پارٹی پاکستان میں عوام کی تقدیر تبدیل کردینے کی دعوی دار تھی۔ لیکن سابق مشرقی پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں مشرقی پاکسان بنگلہ دیش بن گیا۔ پارٹی سابق مغربی پاکستان میں بر سراقتدار آگئی۔ مختلف سیاسی عناصر اور کارکنوں نے پارٹی کے قیام کے وقت ہمہ جہت تبدیلی کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر پارٹی کے قیام کے بعد سے اب تک پوری نہیں ہو سکی ہے۔ پارٹی کا پہلا منشور بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ، پارٹی کے پہلے جنرل سیکریٹری جے اے رحیم (جلال الدین عبدا لرحیم ) نے تحریر کیا تھا۔ سیاست میں آنے سے قبل جے اے رحیم محکمہ خارجہ کے اہم عہدوں پر فائز رہے تھے اور خٓرجہ امور میں ذوالفقار علی بھٹو کی تربیت انہوں نے ہی کی تھی۔ انہیں پارٹی کے پہلے دور حکومت میں جس افسوسناک ناروا سلوک کا سامنا رہا، وہ پارٹی کے تمام رہنماﺅں کے لئے کسی سبق سے کم نہیں تھا۔ پارٹی قائم کرنے والے تمام رہنماءایک کے بعد ایک ایک کر کے پارٹی سے علحیدگی اختیار کرتے چلے گئے تھے۔ پارٹی پہلی بھٹو حکومت میں مکمل بھٹو کے ماتحت تھی۔ یہ کہنا کہ جمہوریت ہماری سیاست ہے، صرف کاغذ تک محدود تھا۔ آج بھی پارٹی کے تاسیسی اجلاس کی دستاویزات کا (اگر پارٹی رہنماﺅں کو کہیں سئے مل سکیں) کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے کہ پارٹی کے قیام کے وقت کیا کیا دعوی کئے گئے تھے ۔ مرحومہ بے نظیر کے ماتحت جب پارٹی آئی تو بھی پارٹی سے بچے کھچے لوگوں نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ بے نظیر کے بارے میں تو مشہور تھا کہ پیپلز پارٹی میں رائے مرحومہ کی ہوتی تھی باقی مرکزی مجلس عاملہ اور دیگر کمیٹیوں کے آراکین کا اتفاق ہوتا تھا۔
پیپلز پارٹی ایک ایسے دور میں قائم ہو ئی تھی جب ملک میں جنرل ایوب خان کی آمرانہ حکومت تھی۔ انہوں نے اپنی حکومت کو لوگوں کی پارٹی بنانے کی کوشش کی تھی لیکن کامیابی نہیں ہو سکے تھے۔ بھٹو بھی ایوب حکومت کی کابینہ کے رکن تھے۔ ملک بھر میں جمہوریت کا فقدان تھا اور گھٹن تھی۔ ملک کے تمام سیاسی حلقے، کیا دایاں بازو، کیا بایاں بازو، کیا آزاد فکر کے حامل عناصر سب ہی اس بات پر متفق تھے کہ ایوب خان سے نجات حاصل کی جانی چاہئے۔ بہر حال ایسے حالات میں معراج محمد خان ، میر رسول بخش خان تالپور، شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن میر، جیسے سیاسی کارکن بھٹو کے گرد جمع تھے۔ کوثر نیازی ، عبدالحفیظ پیر زادہ جیسے دائیں بازو کے کارکن، غلام مصطفے جتوئی، غلام مصطفے کھر، بڑے زمیندار ممتاز بھٹو جیسے جاگیردار اور جاگیردانہ مزاج کے حامل ، آزاد خیال حنیف رامے، ملک معراج خالد، عبدالحمید جتوئی ، دریا خان کھوسو، ہال کی درگاہ کے گدی نشیں طالب المولی مخدوم محمد زمان ، رانی پور کی درگاہ کے گدی نشین کے بھائی پیر عبدالقادر جیلانی، وغیرہ وغیرہ پیپلز پارٹی کی طاقت بن گئے تھے لیکن بھٹو کی آمرانہ اور جابرانہ سوچ پارٹی کو عوام کی پارٹی بنانے میں حائل تھی ۔
پارٹی کا یہ المیہ ہے کہ وہ ماسوائے سندھ، پنجاب اور صوبہ سرحد (کے پی کے) میں اپنی جڑیں رکھنے کے باوجود ان جڑوں کو برقرار اور مضبوط نہیں کر سکی۔ اسماعیل گنڈاا پور، حیات محمد خان آف شیر پاﺅ، وغیرہ نیشنل عوامی پارٹی اور مفتی محمود کی جمیعت علماءاسلام کی مقبولیت کے باوجود پارٹی کو منظم کئے ہوئے تھے ۔ بلوچستان میں بھی پارٹی جتنی بھٹو دور میں موجود تھی اتنی بھی نہیں رہی۔ سندھ میں بھی پارٹی اپنا مضبوط ووٹ بنک رکھنے کے باوجود عوام میں مقبول نہیں ہو سکی۔ حد تو یہ ہے کہ سندھ میں اردو ، پنجابی اور پشتو بولنے والوں کو بھی پارٹی میں اتنا بھی سمویا نہیں جا سکا جتنا اس کے قیام کے وقت تھا ۔ حالانکہ کراچی سے اردو بولنے والوں نے 1970میں پارٹی کے نامزد امیدواروں کو منتخب کرایا تھا لیکن حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پارٹی کو نقصان پہنچا۔یہ ایسا ہی ہوا کہ پارٹی پنجاب سے ختم ہوتی چلی گئی، کے پی کے میں اس کے حامیوں کی قابل ذکر تعداد نہیں رہی، بلو چستان میں پارٹی نام کے چند بڑے سرداروں کی پارٹی تک محدود ہو گئی ہے۔ یہ پیپلز پارٹی کا ہی المیہ ٰ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو المیہ ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی کو جو پابندی لگنے سے قبل عوامی نیشنل پارٹی تھی، صوبہ کے پی کے تک محدود ہو کر پٹھانوں کی پارٹی بنا دیا گیا۔ آج یہ پارٹی ولی خان خاندان تک محدود ہو گئی ہے۔ پارٹی سربراہ اسفند یار ولی پارٹی کے سربراہ، ان کے سمدھی شاہی سید سندھ کے صدر، ان کے بیٹے ایمل ولی صوبہ کے پی کے کے صدر ہیں۔ یہ وہ پارٹی ہے جس میں پختونوں کے علاوہ اردو اور سندھی بولنے والے، پنجابی بولنے والے سب ہی شامل ہوا کرتے تھے۔ محمود علی قصوری اس پارٹی کے پنجاب کے صدر ہوتے تھے، قصور گردیزی پنجاب کے جنرل سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ کراچی کے محمود الحق عثمانی مرکزی جنرل سیکریٹری ہوا کرتے تھے ، حیدرآباد میں وسیم عثمانی اور باقر شاہ ہوا کرتے تھے ، آج پارٹی کہا ںکھڑی ہے۔
مسلم لیگ (جو اب نواز شریف گروپ کی پارٹی ہے) بھی اب صرف پنجاب تک محدود ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ فنکشنل پیر پگارو کے دست شفقت کی وجہ سے زندہ ہے۔ پیر پگارو خود پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی پیر صدر الدین صوبہ سندھ کے صدر ہیں۔ جمیعت علماءااسلام کی قوت اور مقبولیت مدرسوں تک ہی محدود ہے، جمیعت علماءپاکستان کو ضیاءدور سے جس ٹوٹ پھوٹ دے دوچار کیا گیا، اب خال خال رہ گئی ہے۔ ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیوں کا المیہ رہا ہے، کہ وہ عوام میں منظم نہیں ہو سکے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کے گرد گھومتی تھی۔ ان کا حکم حرف آخر ہوتا تھا۔ یہ سب سیاسی جماعتیں ایک ایک ہجوم کی حد تک سیاسی جماعتیں رہ گئی ہیں لیکن اس خوش فہمی کا سب ہی شکار ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ عوام ہجوم کی صورت میں ضرور ہیں لیکن وہ بھی غیر منظم پارٹی ہے۔ یہ ساری سیاسی جماعتیں فرد واحد کی مرہون منت ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اس لئے بچ گئی کہ بے نظیر بھٹو مرحومہ موجود تھیں۔ بھٹو کی بیوہ نصرت بھٹو موجود تھیں۔ لیکن بے نظیر نے اپنی ماں کو ہی مجبور کر دیا تھا کہ وہ ان کے حق میں دست بردار ہو جائیں۔ اس طرح بے نظیر بھٹو پارٹی کی سربراہ بن گئیں اور پارٹی زندہ رہ گئی تھی۔ مرحومہ بے نظیر کی موت کے بعد ان کے رنڈوا شوہر آصف علی زرداری نے پارٹی کی سربراہی سنبھال لی۔۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے بلاول کو دوسرے نام سے رجسٹرڈ پارٹی کا سربراہ نامزد کر دیا۔ خود پاکستان کے صدر بھی بن گئے تھے۔ آصف زرداری نے پارٹی کو ڈرائنگ روم کی پارٹی میں تبدیل کر دیا ہے حالانکہ پارٹی کے بانی بھٹو نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے باہر نکالا تھا۔ امیدوار وہ ہی بن سکتا ہے جس کے پاس پیسہ ہو اور وہ اپنے دم سے الیکشن میں کامیابی کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہو۔ پیپلز پارٹی سمیت ان پارٹیوں کی مرکزی مجلس عاملہ کی حیثیت ”جی جناب“ سے زیادہ نہیں ہے۔۔اراکین کے خیالات کو سنی ان سنی کر دیا جاتاہے۔ اسی سبب تمام رہنماءجی حضوری کرنے پر اس لئے مجبور ہیں کہ انہیں ہر آنے والے انتخابات میں پارٹی ٹکٹ چاہئے ہوتا ہے۔ امیدوار اس خام خٰالی کا شکار ہیں کہ پارٹی کا ٹکٹ ہی انتخابات میں ان کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اسی لئے ایک دفعہ کامیابی کے بعد آراکین اسمبلی اور وزراءکچھ ہی کیوں نہ ہوجائے، عوام کو پوچھتے تک نہیں ہیں۔ حال ہی میں سندھ میں جو تباہ کن بارشیں ہوئیں اور سیلاب آیا ، ہزاروں لوگ بے گھر اور بے روزگار ہوئے لیکن کسی رہنماءنے لوگوں کو خوراک کا ایک نوالہ بھی فراہم نہیں کیا۔
سیاسی جماعتوں کو فرد واحد کی جماعت بننے کی بجائے عوام کی جماعت بننے کی ضروورت کو سمجھنا چاہئے۔ اگر سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت قائم ہو اور غیر آئینی طاقتیں ملک کے نظام حکمرانی میں دخل اندازی سے دور رہیں تو ان کی موجودہ قیادتوں کو اپنی اپنی موجودہ حیثیتوں سے دست بردار ہو جانا چاہئے۔ مسلم لیگ ن میں جس طرح نامزدگی کے ذریعہ نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم نواز کو نائب صدر مقرر کر دیا، کیا وہ جمہوری عمل تھا۔ اور اب کہا جا رہا ہے کہ انہیں پارٹی کی صدارت سونپی جارہی ہے۔ اس سارے عمل میں کسی سے رائے نہیںلی گئی۔ جس طرح نامزدگیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے اب تک ابتداءکے تمام ہی رہنماءعلیحدگی اختیار کر گئے اسی طرح ن لیگ سے بھی لوگ رخصت لکھوائیں گے۔ جب سیاسی جماعتوں سے جمہوریت رخصت ہو جاتی ہے تو ملک سے بھی جمہوریت کو رخصت ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے۔ (علی حسن)۔۔