تحریر:سید بدر سعید
پاکستان کے سب سے بڑے پریس کلب کے انتخابات پر صحافی برادری ہی نہیں بلکہ بہت سی مقتدرہ شخصیات کی بھی نظریں ہیں۔ لاہور پریس کلب کے انتخابات اسی ہفتے ہیں جس میں لاہور کے صحافیوں کے راہنما کا تعین کیا جائے گا۔ ان انتخابات کو مختلف چینلز کوریج دیتے ہیں۔ “نئی بات ” کے ایڈیٹر نجم ولی خان ماضی میں نہ صرف صدارتی امیدوار رہے ہیں بلکہ انہوں نے ہی صدارتی امیدواروں کے ساتھ ٹی وی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی جس کے بعد دیگر چینلز نے بھی یہ سلسلہ شروع کیا۔ ایک عرصہ تک لاہور کی صحافتی سیاست میں صحافی کالونی کے ایک بلاک کو پریس کلب کے ووٹ بنک میں کافی اہمیت حاصل رہی۔ المیہ دیکھیں کہ صحافیوں کی کالونی کے اس بلاک میں 17 سال سے کسی ایک صحافی کا گھر نہیں بن سکا بلکہ پلاٹ کا قبضہ بھی نہیں مل سکا۔ عام لوگ سمجھتے ہیں صحافی کوئی توپ چیز ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ صحافی کمیونٹی کے 95فیصد کارکنوں کی تنخواہیں عام سرکاری ملازم سے کم ہیں اور وہ انتہائی مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ آج بھی یہ لوگ سچ لکھنے اور بولنے کی قیمت ادا کر رہے ہیں ۔ صرف پانچ فیصد ایسے ہیں جو نوابی زندگی بسر کر رہے ہیں اور لاکھوں روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ اس سال لاہور کے 32 سو صحافیوں کے لیے پلاٹ کی ایک سکیم شروع ہوئی ہے جو لاہور پریس کلب کی موجودہ سیاست میں اہمیت کی حامل ہے۔ نوجوان صحافی پریشان ہیں کہ کہیں اس سکیم پر بھی ایسی سیاست شروع نہ ہو جائے جس کے نتیجے میں انہیں بھی خدانخواستہ دو دہائیوں تک محض انتظار ہی کرنا پڑے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب حکومت نے صحافیوں کے لیے ہاوسنگ سوسائٹی فیز ٹو کا اعلان کیا اور بتایا کہ صحافیوں کو 32 سو پلاٹ دیے جائیں گے تو اس پر کچھ حلقوں نے شدید ردعمل بھی دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ردعمل مکالمہ کا بنیادی جز ہے۔ اس ردعمل سے ہی معلوم ہوا کہ عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ صحافیوں کو پلاٹ مفت ملتے ہیں۔ ممکن ہے پچھلی صدی میں انفرادی طور پر اس طرح کسی صحافی کو نوازا گیا ہو لیکن صحافیوں کی کالونی میں کسی ایک صحافی کو بھی مفت پلاٹ نہیں دیا گیا اور نہ ہی موجودہ 32سو پلاٹوں میں سے کسی کو مفت پلاٹ دیا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے 5 مرلہ پلاٹ کے لیے جو درخواست فارم دیے گئے ہیں ان کے ساتھ سوا لاکھ روپے ڈاون پیمنٹ جمع کروانے کا کہا گیا ہے جس پر صحافی سراپا احتجاج ہیں۔ اس احتجاج کی وجہ یہ ہے کہ لاہور کی صحافی کمیونٹی میں سے اکثریت کی تنخواہ مزدور کی مقررہ سرکاری تنخواہ سے زیادہ نہیں ہے۔ صحافیوں کا مطالبہ ہے کہ ڈاون پیمنٹ کو پلاٹ کی اقساط میں شامل کر دیا جائے۔ اقساط کی رقم بھی کم کر کے پیمنٹ پلان کو 5سال کی بجائے دس سال کر دیا جائے۔ لاہور پریس کلب کی الیکشن کمپین اور صحافتی سیاست کا محور صحافی کالونی کا فیز ٹو ہے ۔ اس سال صدارتی امیدواروں میں تین پینل مدمقابل ہیں جن میں سے ایک صدارتی امیدوار ارشد انصاری ہیں جو اس سے قبل تیرہ بار پریس کلب کے صدر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے موجودہ حکومت سے اچھے تعلقات ہیں اس لیے وہ فیز ٹو کا معاملہ حل کروائیں گے ۔دوسری جانب ایک مضبوط صدارتی امیدوار بابر ڈوگر ہیں جو ایک نجی ٹی وی چینل کے بیورو چیف ہیں ۔وہ بطور رپورٹر دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے پنجاب بیوروکریسی اور پنجاب اسمبلی کی رپورٹنگ کر رہے ہیں اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر بھی رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی اور پارلیمنٹیرینز سے دو دہائیوں سے رابطہ ہونے کی وجہ سے وہ ہاؤسنگ سکیم فیز ٹو کا معاملہ اگلے سال کے پہلے تین ماہ میں حل کروا لیں گے ۔ وہ سب کے لیے 7 مرلہ سے کم پر بھی رضامند نہیں ہیں ۔ لاہور پریس کلب کی ممبر شپ گزشتہ سال سال سے اوپن نہیں ہوئی ۔ صدارتی امیدوار ارشد انصاری نے اس سال ممبر شپ اوپن کی اور درخواستیں طلب کیں لیکن وہ نئی ممبر شپ نہیں کر سکے ،دوسرے صدارتی امیدوار بابر ڈوگر کا کہنا ہے کہ وہ جنوری میں ہی نئی ممبر شپ کریں گے ۔ المیہ یہ ہے کہ لاہور کے صحافیوں کی بڑی تعداد ابھی تک لاہور پریس کلب کی ممبر شپ سے ہی محروم ہے ۔
لاہور پریس کلب صحافیوں کا بڑا مرکز ہے جسے بدقسمتی سے پلاٹوں کی سیاست تباہ کر رہی ہے ۔اگر پریس کلب سے پلاٹوں کی سیاست ختم ہو جائے تو پریس کلب حقیقی معنوں میں پریس کلب نظر آئے گا ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ صحافی کالونی فیز ون کے ایف بلاک کے ساتھ ساتھ فیز ٹو کا معاملہ بھی 2025 مین مکمل طور پر نمٹا دیا جائے تاکہ پریس کلب میں “انٹلکچول ایکٹیویٹی ” کی رفتار تیز ہو ۔ ڈیجیٹل میڈیا کے قوانین اور اصول ضابطہ پریس کلب کو تیار کرنے چاہیے تاکہ ڈیجیٹل ورلڈ میں تیزی سے فحاشی کی حوصلہ شکنی ہو اور تخلیقی کاموں کی حوصلہ افزائی ہو ۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بعد اب کمیونیکیشن کا بڑا میڈیم ڈیجیٹل میڈیا ہے جس کے لیے تاحال صحافی کمیونٹی کوئی باقاعدہ ضابطہ اخلاق نہیں بنا سکی ۔ پریس کلب کے اگلے صدر کو اس پر کام کرنا چاہیے ، سینیئر صحافیوں کے ساتھ ساتھ نئے لوگوں کے لیے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ پریس کلب کو صحافی ورکرز اور جامعات کے درمیان بھی ایک پل بننا چاہیے تاکہ اس فیلڈ میں آنے والے نوجوانوں کو جلد ان کی منزل ملے تو دوسری جانب تجربہ کار صحافیوں کے تجربات نئی نسل تک منتقل ہوں ۔ پریس کلب عوام کی آواز ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ اگلی منتخب باڈی جدید بنیادوں پر کام کرتے ہوئے عوام کی آواز کو مزید موئثر بنائے ۔ پریس کلب نئے آنے والوں کے لیے سیکھنے سکھانے کا مرکز بنے تو پاکستان کی صحافت مزید بہتر ہو سکتی ہے۔۔(بشکریہ نئی بات)۔۔