تحریر: سید بدرسعید۔۔
دوہزارسولہ میری زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا ۔ میں نوائے وقت میں ملازمت کر رہا تھا اورفری لانسر کے طور پراے آر وائے کے کرائم شو کا سکرپٹ رائٹر بھی تھا اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے لیے بھی سکرپٹ لکھ رہا تھا ۔ ماہنامہ نئے افق میں ایک سلسلہ وار ناول بھی چھپ رہا تھا ۔ صحافتی سیاست کے حوالے سے پنجاب یونین آف جرنلسٹ کا جوائنٹ سیکرٹری اورلاہور پریس کلب کی لٹریری کمیٹی کا ممبر تھا۔ یعنی زندگی کے ہنگامے جوبن پر تھے ۔
ان دنوں نوائے وقت کے دفتر سے لے کر پریس کلب میں کھانا کھانے اور یونین کے اجلاسوں تک ہر جگہ صحافیوں کو ملنے والے پلاٹوں کا ہی ذکر سننے کو ملتا تھا ۔ صحافی کالونی میں کچھ پلاٹ بی بلاک کے تھے جن کا ایشو چل رہا تھا ، ایف بلاک کی جگہ تلاش کی جا رہی تھی جبکہ ایک نئی صحافی کالونی فیز ٹو کے نام سے بھی صحافتی سیاست میں ہاٹ ایشو تھا ۔ بی بلاک اور ایف بلاک کے پلاٹ 2006 سے پھنسے ہوئے تھے ، بدقسمتی سے تاحال ان پلاٹوں کے مالکان اپنے پلاٹ کے مالک نہیں بن سکے اور نہ گھر بنا سکے ہیں ۔ اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا کے دوستوں کے لیے الگ سے ایک ایمپرا کالونی کی باتیں ہونے لگیں ۔ پریس کلب کی سیاست میں تاحال یہ پلاٹ اور نئی کالونی ٹاپ سیاسی ایشو ہوتا ہے جو کسی گروپ کے جیتنے یا ہارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے جنہیں اچھے وقتوں میں پلاٹ مل گئے تھے بس انہیں ہی مل سکے اس کے بعد لگ بھگ 13 ، 14 سال سے ان پلاٹوں پر یار دوست یا تو ذلیل ہوئے یا پھر سیاست کی نذر ہوئے
میں اس ساری صورت حال کا عینی شاہد تھا ۔ جانے کس لمحے میں نے فیصلہ کیا اور اللہ سے ایسی دعا مانگی جو اس نے قبول کر لی ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ محض سبسٹڈی کے لیے میں اپنی زندگی کے اتنے برس لاحاصل کے پیچھے ضائع نہیں کروں گا ۔ اللہ پاک توفیق دے تو مہنگا سہی لیکن اپنا پلاٹ خود خرید لوں گا ۔ میں پلاٹوں کی اس گیم سے باہر نکل آیا ۔ میرے جو دوست اس گیم میں شامل ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ابھی اگلے کئی برس تک یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا
سچ کہوں تو مجھے اس جانب روزنامہ اسلام کے رپورٹر رانا فیصل عزیز نے متوجہ کیا تھا ،میں نے پہلی فائل اسی کے ساتھ جا کر خریدی ۔ اس نے اسی سوسائٹی میں دو فائلیں خریدیں ۔کہنے لگا قسط تو ایک ہی جمع کرواؤں گا بس ایک مہینے ایک فائل کی قسط تو دوسرے مہینے دوسری کی ۔ ۔۔اس طرح وقت ملتا رہے گا ، پھر جب کچھ پیسے آئیں گے تو جو قسطیں رہتی ہوں گی ان کے پیسے جمع کروا دوں گا ۔۔اس طرح ایک پلاٹ کے اخراجات میں دو پلاٹ چلتے رہیں گے ، جہاں لگا مینج کرنا مشکل ہو رہا ہے وہاں ایک فائل بیچ دوں گا ، تب اس کے بھی زیادہ پیسے مل جائیں گے ، کچھ سے پہلی فائل مینج ہو گی ، کچھ اضافی پیسے مل جائیں گے ۔ بعد میں رانا فیصل دونوں فائلیں بیچ کر بحریہ ٹاؤن چلا گیا ، ایک فلیٹ بھی لاہور کے دل میں لے لیا ، پھر ترکی چلا گیا ، درمیان میں آیا تو پھر قسطوں پر دو تین پلاٹ لے لیے ۔ میں خاموشی سے اپنی فائل کی قسطیں دیتا رہا اور لاہور کی لگ بھگ سبھی سوسائٹیز کے اتار چڑھاؤ دیکھتا رہا ۔اس دوران میرے ساتھ یہاں فائل خریدنے والے بہت سے دوست افواہوں کی وجہ سے اپنی فائل اونے پونے بیچ کر نکل گئے ، کچھ نے بعد میں مزید مہنگی فائل دوبارہ خریدی ۔اس کے بعد دوسرا رانا جو اس دھندے میں آیا وہ رانا فہد تھا جو اون پر ٹریڈنگ کرتا اور ہر مہینے فری رہ کر ایک ڈیڑھ لاکھ اسی ٹریڈنگ سے کما لیتا ۔ باقی کچھ دوست باقاعدہ پراپرٹی کے دھندے میں آ گئے
گزشتہ دنوں میں نے ایک اور سوسائٹی میں پلاٹ کی فائل خریدی جہاں اس وقت لاہور میں سب سے کم ریٹ پر فائل مل رہی تھی لیکن میری نظر 4 سال بعد کے پلان ر ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے پہلی فائل خریدتے وقت ہم ایک اجاڑ علاقے میں زمین خرید رہے تھے لیکن چار سال میں وہاں ہر بڑا برانڈ نظر آ رہا ہے کیونکہ یہ سب سوسائٹی مالک کے پلان میں شامل تھا ۔ پریس کلب والا پلاٹ ابھی تک خواب میں ہی ہے ۔ کئی وعدے ہو چکے ہیں ، کئی ہو رہے ہیں ۔آج سوچتا ہوں کہ اگر ہم چند دوست بھی اسی خواب کی سنہری زنجیر سے بندھے رہتے تو آپ بھی وہیں کھڑے ہوتے جہاں 2016 میں تھے ۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ اس مالک نے ہمیں اچھے وقتوں میں اچھا راستہ دکھا دیا میں اپنے صحافی دوستوں سے بھی یہی گزارش کروں گا کہ خواب دیکھنے کی بجائے ان کی تعبیر دیکھیں ۔ آس اور امید پر جینے کی بجائے خود سٹریٹیجی بنا کر زندگی کا سفر طے کریں ۔ان شا اللہ جلد ہی حالات بدلنے لگیں گے (سید بدر سعید)۔۔