تحریر: ظہیر احمد بابر
کراچی پانی کو ترس رہا ہے ۔ عوام لاچار ہیں ، حکمران بے کار ۔ بارہ برس گزرگئے ۔ کے فور منصوبہ مکمل نہیں ہوپایا ۔جون 2018 ء میں پہلا مرحلہ مکمل ہونا تھا ،جوحالات ہیں ، 2020 تک بھی تکمیل ممکن نہیں ۔28 ارب کی لاگت 100 ارب سے بڑھ جانے کا اندیشہ ہے ۔ حقیقت پوچھیں تو سندھ میں نااہلی اور بددیانتی کی داستان رقم کی جارہی ہے ۔
عالم یہ ہے ، انسانوں کے جنگل بنے کراچی میں حالات بھی کسی جنگل جیسے ہیں ۔ جگہ جگہ بغیر منصوبہ بندی کے خود رو عمارتیں اگ رہی ہیں ۔کئی کئی منزلہ عمارتوں کے فلیٹوں میں رہنے والوں کیلئے مناسب سیوریج کا نظام ہے ، نہ پانی دستیاب۔کراچی کی ضرورت 1200 ملین گیلن روزانہ ہے ، مل رہا ہے صرف 550 ملین گیلن ۔ اس میں سے بھی 20 ملین گیلن اسٹیل مل کو چلاجاتا ہے اور 100 ملین گیلن پانی ترسیل وتقسیم کی خرابیوں کی نذرہوجاتا ہے ۔ہائیڈرنٹ مافیا کا حصہ الگ ہے ۔
2007 ء میں کراچی کو کینجھر جھیل سے 650 ملین گیلن پانی دینے کا منصوبہ سامنے آیا ۔ 28 ارب روپے لاگت کی ابتدائی فزیبلٹی تیارہوئی ۔عوام خوش ہوئے ، ہمارا خیال تو آیا لیکن اگلے 8 سال تک ہوا کچھ نہیں ۔ 2014ء میں باقاعدہ منظوری دی گئی ۔ اس کے بعد ّّکے فورٗٗ کا ذکر 2 سال تک صرف تقاریر میں کیا جاتا رہا ۔ 2016ء میں عملی کام شروع ہوا ۔ سندھ سرکار نے پہلا مرحلہ 2 سال میں مکمل کرنے کی نوید سنائی ۔جون 2018ء افتتاح کا مہینہ طے پایا ۔ وہ کب کا گزرچکا ۔ اب تو 2019ء کا جون سر پہ ہے ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ابھی صرف 41 فیصد کام مکمل ہوپایا ہے ۔ سندھ سرکار ، وفاق کو فنڈز فراہم نہ کرنے کا الزام دیتی ہے ۔ وفاق کہتا ہے ،ہم نےابتدائی فنڈز دے دیئے ، اب صوبہ اپنا حصہ لگائے ۔ عوام خاموش ہیں ، حکمران اپنا اپنا سچ بیچے جارہے ہیں ۔
سندھ واٹر کمیشن کے ایک اجلاس میں واٹر بورڈ نے کے فور کا ورک پلان پیش کیا۔ بتایا گیا ، منصوبے میں ایک بار پھر تبدیلی لائی گئی ہے ۔ اب کینجھر جھیل سے پانی سیدھا کراچی نہیں آئے گا۔ پہلے نئی ہاؤسنگ اسکیم کی طرف جائے گا ۔ یہ سن کر واٹر کمیشن کے ارکان بے ساختہ بولے ۔ پھر تو یہ پانی کراچی کو ملتا نظر نہیں آرہا ۔ جسٹس ریٹائرڈ امیر ہانی مسلم نے ّّکے فور ٗٗمنصوبے میں 22 تبدیلیاں کرنے سے متعلق کنسلٹنٹ رپورٹ ہی مسترد کردی ۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سے استفسار کیا گیا تو وہ یقین دہانی کرانے لگے ۔ سارا پانی کراچی کو ملے گا ، کسی نئی بستی کو نہیں ۔ فروری ، مارچ تک پانی ملنے کی نوید بھی سنائی جو تاحال برنہیں آئی ۔
گزرے ہفتے میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی وترقی کے اجلاس میں ّّکے فور منصوبہٗٗ زیر بحث آیا ۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر کے بتائے اعدادوشمار سن کر چیئرمین کمیٹی شاہ زیب درانی کہے بغیر نہ رہ پائے ۔ ّّکے فور منصوبے میں غفلت نہیں ، بلنڈر ہوا ہے بلنڈرٗٗ ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا ، کے فور کے ڈیزائن میں تکنیکی خرابی ہے ۔ لاگت مزید بڑھ سکتی ہے ۔ کمیٹی ارکان برہمی سے بولے ۔ 12 برس گزرگئے ۔ ابھی تک کراچی کو پانی فراہم نہیں کیا گیا ۔منصوبے میں خامیاں ہی خامیاں ہیں ۔ ابھی تک فزیبلٹی بن رہی ہے ۔ منصوبے میں بنیادی چیزوں کا کوئی اتا پتا نہیں ۔جہاں منصوبہ ہے ، وہاں بجلی کا انتظام نہیں ۔ منصوبے کو چلانے کے لیے بجلی کہاں سے لی جائے گی ؟ یہ تک طے نہیں ہو پایا ۔ قائمہ کمیٹی نے ّّکے فور منصوبے ٗٗ میں غفلت اور بلنڈرز کی مکمل انکوائری کی سفارش کی ۔ ساتھ ہی خبردار کیا ، جیسے کام ہورہا ہے ، لاگت 100 ارب سے بڑھ جائے گی ۔
اجلاس میں ایڈیشنل سیکریٹری منصوبہ بندی نے یہ بتا کر ّّ کے فور ٗٗ کی قبر کھود دی کہ منصوبے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے ، پورا منصوبہ ری ڈیزائن ہوگا ۔ مطلب ۔ 12 برس سرکاری بابو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے ۔ اربوں روپے بیٹھنے ، بولنے اور اٹھ جانے میں ضائع کردیے ۔سیدھا سیدھا عوام کو الو بنایا گیا اور بدستور بنایا جارہا ہے ۔ کیا اب بھی یہ ریفرنس نہیں بنتا ۔ نیب کو کس بات کا انتظار ہے ؟(ظہیراحمدبابر)۔۔
(ظہیر احمد بابر صاحب سینئر صحافی اور منجھے ہوئی لکھاری ہیں، برسوں پہلے ان کی تحریر کردہ ایک کتاب ،بازار حسن سے پارلیمنٹ ہاؤس تک ، نے کافی شہرت کمائی تھی،یہ کتاب آج بھی ان کا تعارف ہے۔۔ ظہیر بھائی کے ساتھ نیونیوزمیں کچھ عرصہ گزارا جو بہت یادگار رہا، اب آپ ظہیراحمد بابر کی تحریریں تواتر کے ساتھ ہماری ویب پر پڑھ سکیں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔