maslon ka masla

پیاری کے الیکٹرک

بلاگ: خرم علی راؤ

پیاری کے الیکٹرک ، امید ہے کہ تم ہمیشہ کی طرح تمام کراچی والوں کی برقی رو کی فکر میں ہلکان و سرگرداں ہوگی، سچی مچی کبھی کبھی مجھے تم پر بڑا ترس آتا ہے کہ ایک نازک سی پری اور کتنوں کے عذاب والی صورتحال سے دوچار تم، کتنی محنت مشقت اور مستعدی سے ہماری بجلی  کے بارے میں کتنی فکریں خودپر لادے ہوئے ہو، یہ نازک سے کندھے اور کتنے بوجھ ، اب دیکھو نا کتنی ذمہ داریاں ہیں تمھاری ،کتنی فکر تمھیں کہاں کہاں کرنی پڑتی ہے، مثلا لوڈ شیڈنگ میں بظاہر کمی کرنے کی فکر ، بل زیادہ سے زیادہ بھیجنے کی فکر، تانبے کے بچے کچے تاروں کو جلد از جلد اتار کر ان کی جگہ مزید سپر کنڈکٹر المونیم کے تار لگانے کی فکر، کراچی جیسے ملک نما شہر کے لاتعداد علاقوں میں فیول کی بچت  کرنےکے ساتھ ساتھ لوگوں خصوصا نوجوانوں کو لایعنی کاموں نیٹ ٹی وی  وغیرہ کے بے جا استعمال سے بچانے کی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے وقت بے وقت گھنٹوں تک بجلی بند کرنے کی فکر، ہائے یہ تمھاری فکریں تو ہمیں مار ہی نہ ڈالیں کہیں۔

اچھا سنو! یہ خط میں تمھیں یوں لکھ رہا ہوں کہ لوگ عجیب عجیب افواہیں پھیلاتے ہیں تمھارے بارے میں، مجھے سن کر تکلیف بھی ہوتی ہے اور غصہ بھی آتا ہے ،تو میں نے سوچا کہ کیوں نا مکتوب کے ذریعے تم سے پوچھ لوں، تاکہ انکی دریدہ دہنی کا کچھ جواب تو دے سکوں۔ اب دیکھو تمھارے منافع میں روز افزوں اضافہ ہوتا دیکھ کر اور تمھاری ترقی سے جل کر کباب ہونے والے حاسدین،اور وہی حاسدین جنہوں نے پہلے بھی  افواہیں پھیلائی تھیں کہ تم نے تقریبا 100 ارب ورپے کے تابنے کے تار اتار کر بیچ کھائے اور اسکی جگہ المونیم یا سلور کے تار لگادیئے جو بار بار جل جاتے ہیں، حالانکہ میں تو تمھاری محبت میں ان سے جب بھی بحث کیا کرتا تھا کہ المونیم تو تانبے سے زیادہ بہتر موصل ہوتا ہے سستا اور اچھا بھی ہوتا ہے،اور بار بار ٹوٹنے کی وجہ وہ کوے ہیں جو اس پر آکر بیٹھ جاتے ہیں، تو جنہیں بھی میں یہ سمجھانے کی کوشش کیا کرتا تھا وہ نہ جانے کیوں پہلے مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتے تھے اور پھر معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگتے تھے،خیر یہ تو پرانی بات ہوئی،اب یہ حاسدین نئی لائے ہیں مارکیٹ میں کہ یہ جو تم نے اتنی محنت سے سارے کراچی میں نئے میٹر لگائے ہیں وہ بہت ہائی ٹیک کنٹرولڈ ہیں، اور تمھارے افسران دفتر میں بیٹھے بیٹھے ان میٹرز کی ریڈنگ میں رد و بدل کر سکتے ہیں، بتاؤ ذرا،اتنا رکیک الزام،سچی میرا تو خون کھول گیا یار، ایسا کیسے ہو سکتا ہے بتاؤ ذرا؟ پر ان افواہ سازوں کو کون سمجھائے بھئی، مگر تم دل پر مت لینا،سچ کبھی نہیں ہارتا،اور سچائی ایک نہ ایک دن سامنے آکر رہے گی اور پھر ان افواہ ساز حاسدوں کے چہرے دیدنی ہوں گے۔ ویسے ایسا ہوگا نا؟

ایک اور افواہ یہ گرم ہے اور مجھے بڑے افسوس سے یہ بتانا پڑتا ہے کہ کچھ ناہنجار اور نمک حرام تمھارے اپنے ادارے کے ملازمین بھی اس افواہ سازی میں کردار ادا کر رہے ہیں کہ افسران کو ہر علاقے سے ایک طے شدہ رقم کا ٹارگٹ ہر مہینے ملتا ہے اورانہیں  وہ لازما پورا کرنا ہوتا ہے ورنہ نوکری تیل! اب اس کے لئے چاہے افسران کو اوور بلنگ کرنا پڑے، لوڈ شیڈنگ کرنا پڑے،زبردستی جرمانے لگانے پڑیں یا جو بھی کرنا پڑے صارفین کے ساتھ ،وہ کریں اور پیسے پورے کریں ورنہ بڑے صاحبان بہت ناراض ہوجاتے ہیں۔ بھلا بتاؤ! یہ بھی کوئی بات ہے، تم تم ہو کوئی ٹریفک پولیس تھوڑی نا ہو کہ صاحب کو شام تک اتنی بیٹ جمع کر کے دینا ہی ہو، افواہ سازی میں بھی کچھ تو عقل کا استعمال کریں نا بھئی، ایسے گھٹیا الزام، میرا تو مانوں خون بار بار کھولنے لگتا ہے۔

اور بھی کئی باتیں کرتے ہیں لوگ، پر چھوڑو یا،جانے دو، تم خود بھی کہاں کم ہو حرفوں کی بنی ہوئی ہو ،تحمل و برداشت کا جواب نہیں بھئی تمھاری، لوگوں کو کہنے دو، کہتے ہی رہنے دو،کبھی اثر نہ لو، خود ہی بول بول کر چپ ہوجائیں گے، والی تمھاری پالیسی،اور تمھاری اعلی تعلیم یافتہ عملے کی یوسفی صاحب کے اس قول ،کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں،جھوٹ،سفید جھوٹ اور اعداد و شمار، کا صارفین پر کامل مہارت سے عملی اطلاق کرنے کی پالیسی  بھی بہت زبردست ہے۔ بس اسی پر جمے رہنا، ویسے ایک صاحب کل عجیب بات بتارہے تھے کہ ترقی یافتہ ممالک میں گھریلوں صارفین جتنے زیادہ یونٹ بجلی کے استعمال کرتے ہیں بل کی شرح یعنی فی یونٹ چارجنگ کا فارمولا کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے،مگر تم الٹی ترتیب پر چل رہی ہو۔۔یعنی سو یونٹ تک قیمت جو ہے وہ اوپر کے یونٹس کے استعمال  میں زیادہ ہوتی  چلی جاتی ہے، یہ  توظلم ہے، میں کہاں چپ رہنے والوں میں،تم پر الزام آئے اور میں خاموش رہوں،ایسا نہیں ہوسکتا، میں نے فورا یہ کہہ کر انہیں چپ کرادیا کہ بھائی ہم کون سے ترقی یافتہ ہیں ابھی! ہم تو بڑے عرصے سے ترقی پذیر ملک ہیں، کیوں ٹھیک کہا نا،کیسا چپ کرایا۔

خیر تم فکر نہ کرنا،کہنے دو بکنے دو جو بھی کچھ کہے کچھ بکے، تم  بس اپنے کام میں لگی رہو، ارے ہاں ! معلوم ہوا ہے کہ تمھاری رخصتی ہونے والی ہے،چائنا کی شنگھائی الیکٹرک سے تمھارا رشتہ پکا ہوگیا،بھئی بہت مبارک ہو، اب تواس خوشی میں مٹھائی کے طور پر پورے کراچی کی لائٹ کم از کم ایک دن تو بند ہونی چاہیئے،کیوں، آخر اتنے بڑے خاندان میں رشتہ ہوا ہے ،جتنی خوشی منائی جائے کم ہے۔ اچھا اب چلتے چلتے ذرا ! یہ دیکھ لینا کہ وہ میرا بل شاید غلطی سے بلکہ شاید کیا یقینا غلطی سے ایک لاکھ سے اوپر کا بھیج دیا  گیا ہے حالانکہ تم تو عرصےسےمجھےجانتی ہوں کہ میں تین کمروں کے چھوٹے سے گھر میں رہتا ہوں، یہ شاید بلاول ہاؤس یا کسی اور بڑے  صاحب کےگھر کا بل سہوا میرے پتے پر آ گیا ،اسے ذرا ٹھیک کرا دینا ڈئیر ،میں  خط کے ذریعے کبھی  نہ کہتا، بلکہ خود آتا مگر وہاں رش اتنا ہوتا ہے کہ سارے دن میں بھی باری نہیں آتی۔ امید ہے کہ اس شہرِ ناپرساں میں اپنے واحد ہمدرد یعنی میرا اتنا خیال تو تم ضرور کرو گی ہی کہ، آخر ہم پرانے دوست جو ہیں۔ فقط تمھارا پرانا دوست۔(خرم علی راؤ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں