shartiya meetha | Imran Junior

پٹ۔رول

علی عمران جونیئر

دوستو،حکومت اور میڈیا نے پیٹرول بم کا نام اب ”مشکل فیصلے” رکھ دیا ہے۔سب اپنی اپنی ڈکشنری اپ ڈیٹ کرلیں۔۔دکھ کی بات ہے کہ پہلے ہم لائٹ میں بیٹھ کر عمران خان پر 10 روپے پیٹرول مہنگا کرنے پر گرجتے تھے اور آج لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے میں بیٹھ کر پیٹرول مہنگے سے مہنگے ترین ہونے پر رورہے ہیں۔وہ تمام صحافی تو قضائے ، رضائے الہٰی سے فوت ہوگئے جو عمران خان کے زمانے میں مہنگائی کا شور مچاتے تھے، سوشل میڈیا پر عوام نے حکومت کا ”توا” لگا رکھا ہے۔ کہتے ہیں۔۔کاریں کھڑی کرنے کا وقت آگیا ہے۔یوتھئے لکھتے ہیں۔ہورکوئی ساڈے لائق خدمت۔۔ایک دوسرے کو مشورہ دیاجارہا ہے کہ ۔۔ اب سولر پر منتقل ہو جائیں۔کسی نے لکھا۔۔میں تو سمجھا تھا کہ یہ سمندروں سے تیل نکال رہے ہیں لیکن یہ تو عام آدمی کا تیل نکال رہے ہیں۔ویسے ایک وفاقی وزیر نے مہنگے پیٹرول سے بچنے کا اچھا مشورہ دیا کہ عوام پیٹرول کم سے کم استعمال کریں۔ اس مشورے پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ کسی نے کہا کہ جب ریل گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان آگے والے ڈبوں کا ہوتا ہے، وہیں کسی سیانے نے کہا۔۔ یار اگر ایسا ہے تو یہ ریل والے اگلے ڈبے لگاتے ہی کیوں ہیں؟

کراچی روشنیوں کا شہر تھا یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں چند دہائیاں پیچھے کی بات ہے۔ وسائل کم تھے لیکن امن و امان تھا، سکون تھا۔ لیکن چند دہائیوں سے کراچی پیچھے کی طرف جارہا ہے، یہ اب روشنیوں کا شہر نہیں رہا، لوڈشیڈنگ نے کراچی والوں کا پیچھا نہیں چھوڑا، بجلی کے بلوں میں رقوم اور ٹیکس بڑھتے جارہے ہیں جبکہ ہر وقت آدھا شہر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے،گیس کا بحران بھی ایسا ہے کہ رمضان المبارک تک میں سحرو افطار کے وقت گیس ناپید ہوتی تھی۔اسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے آج لاوارث ہے، کراچی جو پاکستان کا ایک بڑا شہر ہے اس کے لیے کوئی ”سرپرست” نہیں جو جیسا چاہتا ہے اپنے مفاد کے مطابق کام چلا رہا ہے، یہ شہر جو اپنے اندر تمام قومیتوں اور زبانوں کو سمیٹے ہوئے ہے، اس کے لیے بلاتعصب و بغض کے کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا اور اس کے امن و امان اور یہاں کے رہنے والوں کے تحفظ کے لیے کوئی تو نگہبان اور سرپرست ہو، یہی وجوہات ہیں جو کراچی اور کراچی والے مسائل کا شکار ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ لاقانونیت کا راج ہے،شہر کی کوئی گلی، محلہ، سڑک اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ نہیں رہا، آپ گھر کے دروازے پر لوٹ لیے جاتے ہیں۔ جرائم میں اضافہ مسلسل ہورہا ہے، تمام محکمے من مانی کررہے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے گاڑیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی مریض بنادیا ہے۔ بچوں بڑوں ہرایک کا گھر سے نکلنا دشوار ہوگیا ہے ۔ آئے دن کے پیش آنے والے ان ناگوار واقعات نے عوام الناس کو نفسیاتی عارضوں میں مبتلا کردیا ہے۔کراچی والے اتنے نفسیاتی ہوچکے ہیں کہ کوئی موٹرسائیکل قریب آکر رکتی ہے تو سانس سینے میں ہی اٹک جاتی ہے۔ کوئی موٹرسائیکل اگر گاڑی کے ساتھ چلنے لگے تو دل دھڑکنے لگتا ہے کہ ابھی کون بچائے گا۔۔

لاہور میں کل اپنے ایک صحافی دوست سے ٹیلی فونک گفتگو ہورہی تھی۔ وہ بتانے لگا۔۔آج ایک گھر جانے کا اتفاق ہوا، ان کے ہاں ونڈو اے سی چل رہا تھا، میں نے حیرانی سے پوچھاکہ۔۔ یہ تو بہت زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے اور بل بہت زیادہ آتا ہو گا ۔۔انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔۔او ناں جی، نکا پرا واپڈا وچ ہندا اے، اے سی بند ای نہیں کری دا۔(او نہیں جی، چھوٹا بھائی واپڈا میں ہوتا ہے، اے سی بند ہی نہیں کرتا)۔میں نے سوچا ، بیس لاکھ روپے کا سولر سسٹم لگانے سے بہتر ہے بندہ بیس لاکھ روپے دے کر چھوٹا بھائی واپڈا میں لگوا لے۔۔مہنگائی اتنی ہوچکی ہے کہ گھریلو خواتین بھی پیسے بچانے کے بہانے تلاش کرتی ہیں۔۔اسی طرح کی ایک خاتون جو گھر کے کام کاج سے اکتا کراپنے گھر ”ماسی” لگانا چاہتی تھیں تاکہ انہیں آرام کے کچھ لمحات میسر آسکیں ، لیکن مہنگائی اور شوہر کی تنخواہ اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ ماسی رکھنے کی عیاشی افورڈ کرسکیں۔۔ چنانچہ خاتون خانہ نے اس کا ایک حل نکالا۔۔ اب روز صبح شوہر کے دفتر جانے کے بعد گھر میں رکھے اپنے میلے کچیلے لباس کو زیب تن کرتی ہیں،بوسیدہ سی چادر اوڑھ کر گھر کے باہر تشریف لے جاتی ہیں،دروازہ بند کردیتی ہیں۔ پھر اپنے ہی گھر کی بیل بجاتی ہیں اور انتظار کرنے لگتی ہیں کہ اندر سے کسی کی آواز آئے، وہ اس طرح ایک دو بار مزید کرتی ہیں اور بیل بجاکر انتظار کرنے لگتی ہیں،پھر جلدی سے دروازہ کھول کر گھر کے اندر داخل ہوکر آواز لگاتی ہے۔۔ کون ہے؟؟ پھر جلدی سے دروازہ کھول کر باہر جاتی ہے اور جواب دیتی ہے۔۔باجی کام والی۔۔ پھر خاتون خانہ دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوتی ہیں۔ چادر اتار کر ایک طرف رکھتی ہیں، جھاڑو اٹھاکر صفائی شروع کردیتی ہیں۔۔

پیٹرول اور بجلی مہنگی ہونے سے مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ اس سے پٹواری، جیالا، یوتھیا سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی بھی کارکن نہیں بچ سکتا۔۔حالات اس قدر سنگین ہو سکتے ہیں کہ شاید کھانے پینے کی بھی بہت سی اشیاء آپ کی دسترس سے باہر ہو جائیں لہٰذا چند ضروری اقدامات کر لیں شاید آپ کم متاثر ہوں۔۔اپنے تمام غیر ضروری(جن کے بغیر گزارہ ممکن ہے) اخراجات ترک کر دیں،اور اپنی آمدن کا 5،10 یا 20 فیصد ضرور بچائیں اور کوشش کریں کہ اس سے کوئی ایسی چیز خرید کے رکھ لیں جس کی قیمت یا ڈیمانڈ کم ہونے کے کوئی چانسز نہ ہوں مثلا(سونایا زمین وغیرہ) تاکہ مشکل وقت میں وہ آپ کے کام آ سکے۔۔غیر ضروری سفر و سیاحت،باہر کے کھانوں،کپڑوں اورالیکٹرانک اپلائنسز کی خریداری موخر کر دیں۔۔موبائل اور انٹرنیٹ کے پیکجز آدھے کر دیں۔۔اپنے گھروں میں جس قدر ممکن ہو سبزیاں اگانا اور مرغیاں پالنا شروع کریں اور جن کے پاس وافر جگہ ہے وہ دودھ دینے والا کم از کم ایک جانور ضرور رکھیں۔۔نوجوان ٹک ٹوک یا دیگر سوشل ایپس پہ وقت ضائع کرنے کے بجائے آن لائن بزنس اسکلز سیکھیں اور انٹرنیشنل کمپنیوں(ایمازون،ای بے) وغیرہ پر فی الفور کام شروع کر کے آمدنی بڑھائیں۔۔صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں اور قرب و جوار میں موجود بے آسرا لوگوں کا خیال رکھیں۔۔جتنا ممکن ہو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دیں۔۔تاجر حضرات اپنے دل نرم کریں اور غرباء و مساکین کو ہر ممکن رعایت دیں۔۔چیزوں کی شارٹیج پرpanic نہ ہوں اور پاگلوں کی طرح لپک نہ پڑیں بلکہ اطمینان سے رہیں اور حقداروں کو لینے دیں۔۔سب سے لازمی اللہ سے رجوع کریں یعنی توبہ استغفار کا ورد کثرت سے کریں، اور جو بھی میسر ہے،اس پر شکر ادا کریں، کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا وعدہ ہے۔۔اگر تم شکر بجالاؤگے تو میں تمہیں مزید دوں گا۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مشکل فیصلہ غریب کے ہاتھ میں موجود ایک روٹی کو آدھا کرنا نہیں ہوتابلکہ۔۔اشرافیہ کے پراٹھے پر گھی کی مقدار کم کرنا ہوتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں