تحریر: ناصر جمال
وہ جو کہتا تھا، کچھ نہیں ہوتا
اب وہ روتا ہے، چپ نہیں ہوتا
پاکستانی میڈیا، اپنے سب سے سیاہ اور بدترین دُور سے گزر رہا ہے۔ تین ’’عمرانی‘‘ سالوں نے اسے 30سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ پاکستان کی واسکٹی اور خاکی مخلوق کا جوائنٹ ونچر ہے۔ جس کا اسکرپٹ بڑے ہی بھونڈے طریقے سے لکھا گیا۔ جس کا ٹارگٹ ایک ’’سپائن لیس میڈیا‘‘ تھا۔ میڈیا سیٹھوں ، ایجنڈے والے صحافیوں کو بظاہر ٹارگٹ ظاہر کیا گیا۔ اس مقصد کیلئے، پیراشوٹرز اس شعبے میں گلیمر اور بزنس کے نام پر اتارے گئے۔ سیٹھوں نے ان اور سدھائے ہوئے’’ذاتی غلام صحافیوں‘‘ کے ذریعے، سیاسی حکومتوں اور اداروں سے ڈیلز کرنا شروع کیں۔ 2001ء سے لیکر2021تک 20سال بنتے ہیں۔ اس میں پہلے 17سال، سیٹھوں اور صحافتی ڈریکولاز نے جی بھر ریاست اور قوم کا خون چُوسا۔ اشتہارات اور مراعات کے نہ ٹوٹنے والے ریکارڈ بنائے۔ جبکہ ایک نمبر صحافیوں کو روندا گیا۔ وہ انھیں اپنے مفادات اور مراعات کے دشمن نمبر ون لگنے لگے۔ انھیں آقائوں کے سامنے برائیوں کی جڑ بتایا اور بنایا جانے لگا۔ایک نمبر صحافی برداشت کرنے کی وجہ یہ ٹھہری کہ طاقتور سیاسی اور عسکری آقائوں کو ڈرانا مقصود تھا۔ دو سو نمبر لوگوں کو اصل صحافی اور اس ملک و قوم کے محسن ثابت کرنے پر زور لگا دیا گیا۔ زیرو پوائنٹ ، آبپارہ اور پنڈی صدر ھلال روڈ کے ٹکٹ یافتہ دیکھتے ہی دیکھتے، اسکرین اور اخبارات پر چھاگئے۔ سیٹھ اور یہ لوگ کمال خوشحال ہوگئے۔ عمران خان نے بھی اپنی طبیعت کے برعکس 24سال، میڈیا سیٹھوں اور صحافیوں کے خوب ’’جوتے‘‘ سیدھے کئے۔ اُسے غُصہ بہت تھا۔ جب مالکوں نے ، اُسے شے دی تو وہ ’’شیر‘‘ ہوگیا۔ ابھی حکومت نہیں بنی تھی کہ اندر سے اطلاعات آنے لگیں کہ ’’میڈیا کے پر کترنے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔‘‘ پہلے مرحلے میں فنڈز کی کمی کا بہانہ بنا کر اشتہارات پر کٹ لگانے کا فیصلہ ہوا۔ ابتدائی کٹ پر سیٹھ بپھر گئے۔ انہوں نے لاڈلے اور دو سو نمبر صحافیوں کی بجائے، ’’بونا فائیڈی‘‘ صحافیوں کی ڈائون سائزنگ شروع کردی۔ تاکہ یہ سڑکوں پر نکلیں اور سیاستدانوں کے سامنے شور اور احتجاج کریں۔ ایجنڈے والے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ڈالروں میں ’’تنخواہ اور راتب‘‘ لیتی ہے۔ اُن کے حکومت نے مزے کروا دیئے۔ ڈالر بلند ترین سطح پر چلا گیا۔ ان کی تنخواہوں میں راتوں، رات 30سے 40فیصد کے قریب اضافہ ہوگیا۔ جبکہ آقائوں نے بھی ڈالر بڑھا دیئے۔ سیٹھوں نے اپنے منافع میں کمی کو خسارہ قرار دے دیا۔ انہوں نے ایک نمبر صحافیوں کی تنخواہوں میں کمی اور مراعات تقریباً ختم ہی کردیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اشتہار ان کا حق ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات بھی انھی کے ہیں۔ آپ اپنی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر سے پیدا کریں۔ جبکہ اسی دوران’’خبر‘‘ کی حوصلہ شکنی شروع کر دی گئی اور مثبت رپورٹنگ کی نئی اصطلاح متعارف کروائی گئی۔ وزیراعظم نے جہاں اپوزیشن کو نشانے پر لیا۔ وہیں میڈیا کو بھی ٹارگٹ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اسلام آباد کے تمام کرکٹ گرائونڈز بند کرنے کے پیچھے، دو صحافی کرکٹرز کو سبق سکھانا مقصود تھا۔ پورا، پورا اسکرپٹ لکھا گیا۔ چیئرمین سی۔ ڈی۔ اے سے پوچھا گیا کہ اُس نے دونوں صحافی کرکٹرز کے گرائونڈز خالی کروا لئے ہیں کہ نہیں۔ نوکری بازوں نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا کہ نہ صرف خالی کروا لئے ہیں۔ بلکہ اُن کو کرکٹرز کے لئے بند بھی کردیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصاف دینے کی بجائے، دونوں کرکٹر زصحافیوں کو سی۔ ڈی۔ اے بورڈ سے پہلے رجوع کرنے کا کہا اور سادہ دِل صحافی سی۔ ڈی۔ اے بورڈ کے پاس جاپہنچے۔ بقول میر تقی میرؔ
میرؔ بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
میرے شریف دوستوں کو چاہئے کہ وہ سی۔ ڈی۔ اے بورڈ کی بجائے اتمام حجت کیلئے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ جائیں۔ خوفزدہ نہ ہوں۔ شاہراہ دستور سے انھیں ریلیف مل جائے گا۔مجھے جسٹس اطہر من اللہ کے گرائونڈز کے فیصلے پر انتہائی دُکھ اور افسوس ہے۔ کبھی اُن کے ساتھ شاہراہ دستور اور جناح ایونیو پر مل کر ’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘ اور عدلیہ کی آزادی کیلئے نعرے لگائے تھے۔ جب اعتزاز احسن نے اچانک ہی وکلاء لانگ مارچ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مجھے وکیل، سماجی کارکن، اطہر من اللہ کا دُکھ بھرا چہرہ نہیں بھولتا۔ کتنی ہی عجیب بات ہے کہ آج وہی، بلکہ اس سے زیادہ دُکھ ، ان کے کرکٹ گرائونڈز کو پبلک گرائونڈز قرار دینے اور سی۔ ڈی۔ اے کو ٹیک اوور کرنے کے فیصلے میرے اندر درآیا ہے۔ پارکس، پبلک پارکس ہوتے ہیں۔ گرائونڈز تو دیوانے چلاتے ہیں۔ وہ کرکٹ کے ہوں یا ہاکی کے، فٹ بال کے ہوں کہ باسکٹ بال کے، وہ ان ڈور ہوں کہ آئوٹ ڈور۔ اولمپکس میں شرمناک کارکردگی کے بعد، ذمہ داروں کو بمعہ حکومت ڈوب مرنا چاہئے۔ عمران خان، فہمیدہ مرزا، چاروں صوبائی وزرائے کھیل، سپورٹس ایسوسی ایشنز کا محاسبہ ناگزیر ہے۔ یہ تین سالہ کارکردگی ہے۔ جو دہائیوں سے بیٹھے ہیں۔ اُن کے ساتھ تو ’’بادشاہوں والا سلوک‘‘ ہونا چاہئےتھا۔
خیر بات دوسری طرف نکل گئی۔ واپس آتے ہیں۔وزیر اطلاعات اور ان کے حواری کئی دنوں سے سوشل میڈیا ٹرینڈز اور خبروں کی سچائی کے حوالے سے کئی غموں میں غلطاں ہیں۔جب انھیں بتایا اور سمجھایا جارہا تھا کہ ’’آپ میڈیا کا گلہ نہ گھونٹیں ایک نمبر صحافیوں کو برباد نہ کریں۔ میڈیا کو سیٹھوں سے آزاد کروائیں۔ پیرا شوٹرز کی حمایت نہ کریں۔ یہ آپ کو برباد کردیں گے۔ ماضی کے حکمرانوں کی آنکھوں کے تارے بھی ابصار عالم، حامد میر، جاوید چوہدری، چیمے، اعزازے اور اُن جیسے تھے۔ آج والوں نے صابر شاکروں، ارشد شریفوں ، کامران خانوں جیسے درجنوں کو گود لیا ہوا ہے۔ جو سیٹھ جتنا ، ورکر اور پروفیشنل صحافیوں کا گلہ دباتا ہے۔ انھیں وہ اتنا ہی عزیز ہے۔ کچھ سوشل میڈیا کے لے پالک بھی ہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ نادان دوست ہیں۔ انھیں مکھن، پالش اور گالیوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
صحافت ایک انتہائی سنجیدہ ، ذمہ دارانہ اور خطرناک دھندہ ہے۔ جہاں واردات انتہائی باریک بینی سے ڈلتی ہے۔ وہ بھی اگر اُس کا ریاست اور عوام کے مفاد میں ڈالنا، ناگزیر ہو۔ برسوں کی ساکھ، لمحوں میں تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ پروفیشنل صحافیوں کو ایک ہی کام آتا ہے کہ انھیں کام آتا ہے۔ یہی اُن کا اس دور میں سب سے بڑا عیب بنا دیا گیا تھا۔ مگر اچانک ہی فواد چوہدری اور پنڈی کے چوہدریوں کو خیال آیا ہے کہ ’’خبر کی معتبریت‘‘ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ باہر والے اپنے ایجنٹوں کی اوقات جانتے ہیں۔ (مگر اپنے ’’سہولت کاروں‘‘ کو پہلی بار’’OWN‘‘ کررہے ہیں۔ جیسے افغانستان سے وہ 35-30ہزار لوگوں کو لے جارہے ہیں۔)
پاکستان کے ’’ٹٹ پونجیوں‘‘ اور راتب خوروں کی خبروں،مواد اور تجزیوں کو وہ مانتے نہیں ہیں۔کیونکہ انہیں پاکستان اور باہر کے لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ایجنڈا دیا گیاہے۔باقی وہ ان کی اوقات خود سمجھتے ہیں۔ پروفیشنل صحافی دیوارسے لگے ہیں۔ ان کے پاس چلیں، سوشل میڈیا کی شکل میں محدود ہی سہی، مگر پلیٹ فارم ہے۔ مگر وہ ان کی ضروریات زندگی پورا نہیں کر پارہا۔ سنجیدہ قسم کے لوگ صحافت کو چھوڑ کر بچوں کیلئے’’ زندگی‘‘ کرنے پر مجبور ہیں۔ صحافت کا ٹھرک کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پورا کرلیتے ہیں۔
اسلام آباد اور پنڈی کے چوہدریوں کو نہیں معلوم ہے کہ انھوں نے ریاست اور عوام کے ساتھ کیا، کیا ہے۔ انہوں نے ’’اصل واچ ڈاگ‘‘ تقریباً مار دیا ہے۔ جبکہ دوغلی نسل کے نام نہاد واچ ڈاگ کو جوان کرنا شروع کیا ہے۔ یہ ٹیسٹ ٹیوب واچ ڈاگ، ویسے تو ہر جگہ ہی فیل ہورہا تھا۔ مگر جب ملک و قوم، ریاست کو ضرورت پڑی تو اس کی نہ کوئی سنتا ہے۔ نہ ا عتبار کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اہمیت ہی نہیں دیتا۔
قارئین۔۔پنڈی اور اسلام آباد کے چوہدریوں نے یہ کونسی ملک کی خدمت کی ہے۔ آج گھٹن ہے۔ اپنے بنائے ہوئے بت، بغاوت کرگئے ہیں۔ جنہیں گروم کررہے ہیں۔ انھیں کھیل کا پتا ہی نہیں ہے۔حضور اگر جرنیل، سیاست دان، بیورو کریٹ، جج راتوں رات نہیں بنتا تو صحافی بھی نہیں بنتا۔ اگر آپ ریاست کے وفادار ہیں تو معافی مانگیں۔ اپنے ٹیسٹ ٹیوب کہیں ’’دفن‘‘ کردیں۔ جن کا یہ کام ہے، انھیں کرنے دیں۔ بقول رام ریاض کہ۔۔میں نے ایک عمر گزاری تو مجھے اعجاز ملا۔۔پہلے تو سوچ لے پھر میری آواز سے آواز ملا۔۔(ناصر جمال)۔۔