تحریر: سلیم صافی۔۔
باقی صحافیوں کے لیے تو عمران خان صاحب 2018 کے بعد حکمران بنے ہیں لیکن میں 2013 سے انہیں خیبر پختونخوا میں بطور حکمران دیکھ رہا تھا، اس لیے بھی جب دیگر اینکرز اور کالم نگار صرف ان کی مدح سرائی میں مصروف تھے تو میں انہیں نواز شریف کی طرح حکمران کے طور پر ہی ڈیل کررہا تھا اور تب جب باقی میڈیا پرسنز صرف نواز شریف پر تنقید کر رہے تھے تو میں نواز شریف کے ساتھ ساتھ عمران خان پر بھی تنقید کر رہا تھا۔
اس سے عمران خان اور کچھ لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ میری کوئی ذاتی دشمنی ہے یا میں کسی بغض کا شکار ہوں چنانچہ پی ٹی آئی کی پروپیگنڈا مشین اگر کسی صحافی کے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہوئی ہے تو وہ اس طالب علم کے خلاف ہوئی۔ ان کے سوشل میڈیا ٹرولز اور میڈیا منیجروں میں اگر کسی صحافی کی کردارکشی کے لیے سب سے زیادہ منصوبے بنے تو وہ اس طالب علم کے خلاف بنے اور یہ سب کچھ خود عمران خان صاحب کی ہدایت پر ہورہا تھا۔
یہ سب کچھ ہونے کے باوجود جواب میں گالی دینا تو درکنار میں نے کبھی عمران خان، کسی وزیر مشیر یا پھر رہنما کی ذات سے متعلق کوئی بات نہیں کی، جس کی گواہی گزشتہ روز میرے ٹی وی پروگرام جرگہ میں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے بھی دی۔
شادیوں کے معاملات آئے، علیحدگی کے آئے، ریحام خان کی کتاب چھپنے سے پہلے ہی موضوع بحث بن گئی تھی، جب وہ چھپی تو پھر بھی موضوع بحث بنی رہی لیکن میں نے کبھی ان موضوعات سے متعلق قلم اٹھایا اور نہ ٹی وی پروگرام کیا۔ حالانکہ پی ٹی آئی سے جو مرد یا خاتون رُکن ناراض ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے میرے پاس آتا ہے اور شاید جتنی معلومات میرے پاس ہیں، کسی اور صحافی کے پاس نہیں ہوں گی لیکن میں اپنی خاندانی اور صحافتی اقدار سے مجبور ہوں۔ یہاں تک کہ جب مسلم لیگ(ن) کے جاوید لطیف نے مراد سعید کے خاندان سے متعلق بات کی تو میں نے اپنے جرگہ پروگرام میں اعلان کیا کہ آج کے بعد میں انہیں اپنے پروگرام میں نہیں بلائوں گا۔
اگرچہ مراد سعید اور ان کی اسی ہفتے صلح کرائی گئی لیکن میرے پروگرام میں وہ گزشتہ ہفتے تک نہیں بلائے گئے اب جب انہوں نے اس بات پر معذرت کی ہے تو شاید میں پابندی اٹھا دوں۔
افسوس کہ آج میں مراد سعید کے ایشو اور ریحام خان کی کتاب کو موضوع بحث بنانے پر مجبور ہوا ہوں اور مجبور خود ان لوگوں نے کیا ہے کیونکہ کتاب اور مراد سعید کے ایشو کو بنیاد بنا کر نہ صرف محسن بیگ کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ اسی کا سہارا لے کر پیکا قانون میں ترمیم کرکے ایک ڈریکونین آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے بعد پاکستان عملاً پاکستان نہیں رہے گا بلکہ شمالی کوریا بن جائے گا اور عمران خان ”امیرالمومنین“ نہیں رہیں گے بلکہ کم جونگ ان بن جائیں گے۔
یوں اب یہ سیاست کا نہیں بلکہ آزادیٔ اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کا ایشو بھی بن گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ریحام خان نے اپنی کتاب کا مسودہ تیار کر لیا اور وہ پبلشر ڈھونڈ رہی تھیں تو ترکی میں ایک بندے کو پبلشر بنا کر عمران خان کو سپورٹ کرنے والی ایک ایجنسی نے ان سے کتاب کا اسکرپٹ حاصل کر لیا۔
تب رمضان کا مہینہ تھا اور دوپہر کو عمران خان نے بنی گالہ میں اس حوالے سے اپنے میڈیا منیجروں کا اجلاس طلب کیا جس میں حمزہ علی عباسی کو بھی بلایا گیا۔ فرسٹ اٹیک کا عمران خان کا جو کلیہ ہے اس کے مطابق یہ فیصلہ ہوا کہ حمزہ علی عباسی اس کتاب کے مندرجات کو لیک کرے گا اور پھر باقی اینکرز اور ترجمان ریحام کے خلاف اس انداز میں بولیں گے کہیہ کتاب چھپنے سے پہلے غیرموثر ہو جائے۔ ہم جیسے لوگوں کو بھی کیاتب کی سافٹ کاپی پی ٹی آئی کی طرف سے ملی۔
اس سافٹ کاپی میں بھی مراد سعید وغیرہ کا ذکر ہے اور پھر ریحام کی طرف سے باقاعدہ شائع ہونے والی کتاب میں بھی ذکر موجود ہے لیکن اس سافٹ کاپی پر صفحہ نمبر درج نہیں ہے۔ اب نہ جانے ایف آئی اے میں محسن بیگ کی شکایت کے خلاف مراد سعید نے کس بنیاد پر صفحہ 273کا حوالہ دیا ہے کیونکہ ریحام خان کی جو طبع شدہ کتاب ہے اس میں اس صفحے پر سرے سے مراد سعید کا ذکر ہی نہیں ہے۔
اصل کتاب میں وہ ذکرصفحہ نمبر 4 اور 5 سو صفحے کے درمیان میں کہیں آتا ہے اور تنہا مراد سعید کا نہیں بلکہ اسی انداز میں علی امین گنڈاپور، پرویز خٹک کا بھی ذکر ہے۔
اسی طرح کتاب کے مندرجات میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جن کو کسی صورت مناسب نہیں کہا جا سکتا لیکن ریحام خان کے خلاف قانونی کارروائی باقاعدہ شائع شدہ کتاب کی بنیاد پر ہو سکتی ہے نہ کہ اشاعت سے پہلے لیک ہونے والی سافٹ کاپی کی بنیاد پر۔ اب حمزہ علی عباسی وغیرہ نے ان باتوں کی تشہیر اس وقت ٹی وی پر کردی جب باقاعدہ کتاب چھپی ہی نہیں تھی۔ یوں مراد سعید وغیرہ کے پہلے مجرم تو حمزہ علی عباسی اور خود عمران خان بنتے ہیں لیکن عمران خان ان کے لیڈر جبکہ حمزہ علی عباسی قریبی دوست ہیں۔ اسی طرح محسن بیگ نے صرف کتاب کا حوالہ دیا تھا جو میرے نزدیک نامناسب تھا لیکن مراد سعید نے اپنی طرف سے صفحہ 273کا بھی حوالہ دے دیا جبکہ ریحام خان کی اصل کتاب میں اس صفحے پر ان کا ذکر بھی نہیں ہے۔ ریحام خان نے مراد سعید وغیرہ کے خلاف جو باتیں کی ہیں وہ غیرمناسب ضرور ہیں لیکن قانونی چارہ جوئی کے لیے وہ جواز نہیں بنتیں جبکہ عمران خان کے خلاف مراد سعید وغیرہ کی نسبت ہزار گنا زیادہ باتیں لکھی گئی ہیں اور ان میں بعض باتیں قانونی چارہ جوئی کے لیے اچھا جواز بن سکتی ہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ مراد سعید کو قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے عمران خان خود ریحام خان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کرتے؟ ایک اور سوال یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں ریحام خان کے خلاف برطانیہ کی کسی عدالت میں کتاب کی بنیاد پر مقدمہ دائر کیوں نہیں کیا گیا۔
اسی طرح ان کی کتاب کے تذکرے کی بنیاد پر محسن بیگ کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس وقت ریحام خان خود پاکستان میں موجود ہیں تو کتاب کی مصنفہ کے خلاف پاکستان میں قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی جاتی؟(بشکریہ جنگ)۔۔