خصوصی رپورٹ۔۔
پاکستان ایسوسی ایشن اف پریس فوٹوگرافر (پیپ)کی تنظیم اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی؟؟ موجودہ باڈی نے الیکشن سے قبل 35 ممبران کو یہ کہہ کر اچانک بنیادی ممبر شپ سے محروم کر دیا کہ یہ تمام لوگ فوٹوگرافر نہیں بلکہ کیمرہ مین ہیں۔یہ ایک ایسا اعتراض ہے کہ جس پر سننے والوں نے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔۔ 1998 میں وجود میں آنے والی پیپ یعنی کہ پاکستان ایسوسی ایشن اف پریس فوٹوگرافر کے آئین میں ایسی کوئی بات درج ہی نہیں تھی کہ پیپ کا ممبر کسی اور ایسوسی ایشن کا ممبر نہیں ہو سکتا جبکہ پیپ خود کراچی یونین اف جرنلسٹ اور کراچی پریس کلب کی ذیلی تنظیم شمار کی جاتی ہے۔
جدید دور میں جب فوٹوگرافی ایک اسٹیپ اگے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا میں تبدیل ہوئی تو کیمرہ مین کا نام بھی وجود میں آیا حیران کن طور پر فقط 142 ممبران میں سے 35 اراکین کو یکدم بغیر کسی شوکاز نوٹس کے بنیادی رکنیت سے محروم کر دیا گیالیکن پیپ کی ممبر شپ لسٹ کے نمبر 37پر مرحوم مجیب الرحمان کا نام آج بھی موجود ہے۔رکنیت منسوخ ہونے والوں میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ اسی تنظیم کے سیکرٹری اور صدر بھی رہے۔جبکہ ایک ایسا ممبر قاضی ناصر الدین بھی شامل ہے جس کا نام انتخاب لڑنے کے لیے بورڈ پر آویزاں کر دیا گیا تھا پھر اچانک اس امیدوار کے نام کو نہ صرف بلیک مارکر سے کاٹ دیا گیا ۔اس کو الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے سے روکا گیا اس عمل نے موجودہ الیکشن کومتنازع بنادیا۔یاد رہے 1998 میں رجسٹرڈ ہونے والی پاکستان ایسوسی ایشن اف پریس فوٹوگرافر کی تنظیم ایک بار 2003میں اپنے آئین میں ایک ترمیم کرسکی جس کے مطابق کیمرہ مینوں کو ایسوسی ایٹ ممبر بنانے پر اتفاق ہوا اس کے بعد آئین میں کوئی تبدیلی ہوئی نہ ہی اس تنظیم کاکبھی آڈٹ ہوا۔
اب پیپ میں کام کرنے والے اکثر فوٹوگرافرز چینل مالک ہیں ان کے اپنے یوٹیوب چینل ہے جس میں وہ نہ صرف خود کیمرہ مین ہوتے ہیں، بلکہ ایڈیٹنگ بھی کرتے ہیں رپورٹر بھی خود ہی ہیں۔ ویلاگ بھی کرتے ہیں، ایسے میں کیمرا مین کا الزام لگا کر رکنیت معطل ہونے پر پریس کلب اور ذیلی تنظیموں میں بے چینی پائی جاتی ہے معاملہ کورٹ نوٹس تک جا پہنچا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ اب پیپ کے کئی ممبران بے روزگار ہیں کچھ ممبران مختلف پرائیویٹ کمپنیوں کے لیے فوٹوگرافری کرتے ہیں جبکہ کچھ ممبران سرکاری ملازم بھی ہیں جبکہ کچھ نجی یونیورسٹیوں سے منسلک ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہےکہ کچھ فوٹوگرافر حضرات اسٹیٹ ایجنسی، کھجور کی دکانیں چلا تے ہیں اور بلڈر کا کام کرتے ہیں، کراچی الیکٹرک سپلائی میں بھی فوٹوگرافر اچھے عہدوں پر فائز ہیں خود اس دفعہ سیکرٹری کے عہدے پر منتخب ہونے والے نعمان نظامی کا اب فوٹوگرافی سے کوئی تعلق نہیں وہ ایک یوٹیوب چینل چلاتے ہیں اور مختلف کمپنیوں اور کلائنٹس کے لیے وی لاگنگ کا کام بھی کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہوں نے پچھلے دنوں ایک غیر ملکی دورہ بھی کیا۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیسے ایک فوٹوگرافر کو کیمرا مین بننے سے روکا جا سکتا ہے جبکہ بڑی بڑی کمپنیاں بھی اپنے کیمروں میں اسٹل فوٹوگرافی کے ساتھ اب ویڈیو گرافی کا بھی آپشن دے رہی ہیں کیا خود وی لاگنگ کرنے والے یوٹیوب چینل چلانے والے چینل مالکان فوٹو گرافر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف پریس فوٹوگرافرز(پیپ) کے ذمہ داران اور موجودہ باڈی کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا وہ اس بات پر غور کریں کہ اگر یہ معاملہ عدالتوں میں پہنچا تو پوری ایسوسی ایشن کی 25 سالہ کارکردگی کانہ صرف آڈٹ ہوگا بلکہ سندھ حکومت کی جانب سے دی جانے والی گرانٹ بھی رک جانے کا ندیشہ ہے۔کیونکہ یہ تنظیم متنازع بھی ہوسکتی ہے۔۔ (خصوصی رپورٹ)۔۔