تحریر: طارق حبیب ۔۔
حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ گھر کی چیزیں بیچنے کی نوبت آ گئی ہے، ایک واقعہ سناتا ہوں‘ شاید اس سے آپ کو میری تکلیف کا انداز ہو پائے۔ ایک روز جب گھر میں رات کے کھانے کے پیسے نہیں تھے تو میں اپنی بیوی کے ساتھ گھر کے صحن میں پریشان بیٹھا تھا۔ اچانک گلی سے پرانا سامان خریدنے والے ریڑھی بان کی صدا سنائی دی۔ اس آواز کے ساتھ ہی میری نظر گھر کے صحن میں کھڑی اپنی بیٹی کے واحد اثاثے‘ ٹرائی سائیکل‘ پر پڑی، جو اچھے وقتوں کی نشانی تھی۔ ایک نظر ٹرائی سائیکل پر ڈالی اور پھرسوالیہ نظروں سے اپنی بیوی کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ریڑھی بان مسلسل آواز لگائے جا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے گھر کے سامنے ٹھہر گیا ہے، اور کیوں نہ ٹھہرتا کہ پچھلے چند ماہ کے دوران مناسب حالت کی کئی چیزیں اسے پرانی اشیا کے نرخوں پر مل گئی تھیں، وہ جان چکا تھا کہ اس گھر پر آزمائش کا وقت ہے۔ میں بیٹی کی ٹرائی سائیکل اٹھا کر دروازے کی جانب جانے لگا تو اچانک بیٹی کمرے سے نکل کر سامنے آئی اور پوچھنے لگی: بابا میری سائیکل کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ میں نے بیٹی سے نظریں ملائے بغیر کہا کہ آپ کی سائیکل پرانی ہو گئی ہے، رنگ اتر گیا ہے‘ جگہ جگہ زنگ بھی لگ گیا ہے، باہر دروازے کے پاس جو انکل موجود ہیں‘ وہ آپ کی سائیکل ٹھیک کردیں گے‘ نیا رنگ ہونے سے سائیکل پیاری بھی ہو جائے گی۔ یہ تو ہماری روایت رہی ہے کہ والدین کے لیے قربانیاں بیٹیاں ہی دیتی ہیں، سو میری بیٹی نے بھی میرے بہلاوے میں آکر اپنی اکلوتی دولت میرے حوالے کر دی۔ پھر یوں ہوا کہ ہفتوں تک جب اس ریڑھی بان کی آواز آتی تو بیٹی مجھے ڈھونڈتی اور بتاتی کہ وہ انکل آ گئے ہیں‘ جنہوں نے میری سائیکل کو ٹھیک کرنا تھا، اب ان سے میری سائیکل لے کر دیں۔ بالآخر میری خاموشی اور سرد مہری کے سامنے اس بیچاری نے اس طرح ہار مانی کہ سائیکل سمیت کسی بھی شے کا تقاضا کرنا چھوڑ دیا‘‘۔
یہ آپ بیتی سنانے والا ایک دوست تھا‘ جو کراچی کے ایک جریدے سے بطور فوٹو جرنلسٹ وابستہ رہا ہے۔ ایسا فوٹوگرافر جس نے بم دھماکوں، گولیوں اور لاشوں کے دور میں اپنے ادارے کے لیے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے، ایسی تصاویر بنائیں کہ تین بار مختلف ایوارڈز کا حق دار قرار پایا، مگرکیا کہیے کہ اس کی یہ ساری محنت بھی اسے ‘نئے پاکستان‘ کی میڈیا پالیسیوں کی بھینٹ چڑھنے سے نہ بچا سکی۔ ڈیڑھ سالہ بے روزگاری کی جو روداد اس نے سنائی وہ بیان سے باہر ہے۔ حکومت کی ان پالیسیوں کا وہ اکیلا شکار نہ تھا بلکہ جب تبدیلی آئی اور میڈیا کو ”گھیرنے‘‘ کی کوشش کی گئی تو کئی نشریاتی اداروں کو تالے لگ گئے، بعض ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل نہ رہے، سینکڑوں صحافیوں کواس تبدیلی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ صورتِ حال یہ بنی کہ نئے پاکستان میں 4 ہزار سے زائد صحافی بے روزگار کردیے گئے۔ ان گھرانوں کے مشکل حالات کی جانکاری ملی تو دل بیٹھ سا گیا۔ اللہ بھلا کرے‘ کچھ صحافتی تنظیمیں سرگرم ہوئیں، سینئر صحافیوں اور مخیر حضرات کے تعاون سے فنڈز قائم کیے گئے، بالآخر بے روزگار صحافیوں کے حوالے سے ایسے انتظامات کیے گئے کہ کسی بھی صورت ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے لیکن عالم یہ ہے کہ نظیر باقری کے بقول
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
صحافی اپنے وجود کے قیام اور ادارے اپنے بقا کی لڑائی میں مصروف تھے۔ یہ صورتِ حال ابھی جاری تھی کہ حکومت کی جانب سے ریڈیو پاکستان سے 749 ملازمین کو فارغ کر دیے جانے کی خبر آ گئی۔ پہلے جب صحافی بے روزگار ہوئے اور صحافیوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومتی نمائندے صحافتی تنظیموں کے رہنمائوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس ”بیروزگاری بڑھائو‘‘ مہم میں حکومتی پالیسیوں کا کوئی کردار نہیں‘ یہ نشریاتی اداروں کے مالکان کا اپنا فیصلہ ہے۔ اب جبکہ بیک جنبشِ قلم سینکڑوں افراد کا روزگار چھین لیا گیا ہے تو دیکھتے ہیں کہ اب اربابِ اختیار کیا منطق لاتے ہیں اور ذمہ داری کس کے سر پر تھوپتے ہیں۔ یادش بخیر! جب یہ برسر اقتدار آئے تھے تو اربوں‘ کروڑوں‘ لاکھوں سے کم پر تو بات ہی نہیں کرتے تھے۔ دس ارب درخت، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، دعوے تو ایسے تھے جیسے پلک جھپکتے میں ملک کی تقدیر بدلنے کا پلان ساتھ لائے ہوں۔ سیانے کہتے ہیں کہ قدرت کا عجیب نظام ہے، ہر شخص اپنے ادا کیے گئے ایک ایک حرف پر آزمایا جاتا ہے، پرکھا جاتا ہے، تولا جاتا ہے۔ جب یہ آزمائے گئے تو کھوٹے ثابت ہوئے، پرکھے گئے تو نااہل نکلے، تولے گئے تو ثابت ہوا کہ کوئی وزن نہیں۔ کروڑوں نوکریاں تو کیا دینا تھیں‘ بیس لاکھ افراد روزگار سے محروم ہوگئے۔ اپنے ہر ہر دعوے اور وعدے سے ایسے پلٹے کہ یوٹرن ایک طعنہ بن کر رہ گیا۔
دکھ صرف یہ نہیں کہ نوجوان بے روزگار ہوئے ہیں، غم یہ بھی ہے کہ ایک ایسے قومی ادارے کو تباہ کر دیا گیا ہے جس کے بغیر ہماری تاریخ ادھوری ہے۔ ان طبقات کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ ادارہ آئوٹ آف فیشن ہو چکا ہے، جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ ادارے خود بخود جدت میں نہیں ڈھلتے‘ انہیں جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ اگر آپ میں اتنی اہلیت نہیں تو اس کی سزا ادارے اور اس کے ملازمین کو تو نہ دیں۔ ایسے ”نادر خیالات‘‘ رکھنے والوں نے اگر ماضی کے ریڈیو پاکستان کے پروگرام سن لیے ہوتے تو یقینی طور پر آج ان کی سوچ و فکر کا معیار کہیں بلند ہوتا۔ اگر جدیدیت ہی پیمانہ ٹھہرا تو پھر تو سارے قومی ادارے مقفل ہو جائیں گے۔ پاکستان ٹیلی وژن، قومی ایئر لائن، سٹیل ملز، غرض یہ کہ کس کس پہ ماتم کناں ہوا جائے اور کس کس کا نوحہ کہیں۔ علامتی ہی سہی‘ کوئی تو ایسا ادارہ چھوڑ دیں جسے تبدیلی کا شاخسانہ بتایا جا سکے۔
تبدیلی کی صدا پر لبیک کہنے والے حالات کو دیکھتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر چکے، تال سے تال ملانے والے ہونق بنے بیٹھے ہیں۔ سکرین پر نظر آنے والے حامی بھی اب رجوع کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ بیچارے بھی کیا کریں، حالات ہی ایسے بنا دیے گئے ہیں۔ ایک خوف ہے‘ جو ہر سو پھیلا ہوا ہے، نوکری کا خوف، تحفظ کا خوف، اولاد کا خوف، مستقبل کا خوف، گھر کے چھن جانے کا خوف۔ ایسی صورتِ حال میں دن میں نصف درجن سے زائد پریس کانفرنسز اور اور ان پریس کانفرنسز میں چرب زبانی سے حکومتی کارکردگی ثابت نہیں کی جا سکتی۔گھروں کے بجائے پناہ گاہیں بنانے اور روزگار کے بجائے لنگر خانے کھولنے سے عوام کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ جمہور کو حامی بنانا ہے تو وعدوں اور دعووں سے یوٹرن لینے کے بجائے‘ ان پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔
تبدیلی کی صدا پر لبیک کہنے والے حالات کو دیکھتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر چکے ہیں۔ سکرین پر نظر آنے والے حامی بھی اب رجوع کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ بیچارے بھی کیا کریں، حالات ہی ایسے بنا دیے گئے ہیں۔ ایک خوف ہے‘ جو ہر سو پھیلا ہوا ہے، نوکری کا خوف، تحفظ کا خوف، مستقبل کا خوف۔ (بشکریہ دنیا)