تحریر: خرم علی عمران۔۔
کل اسی ویب سائٹ پر ایک فرضی کہانی پڑھنے کو ملی تو بڑا مزہ ایا سوچا ایک اور کہانی بھی قارئین کی خدمت میں قند مکرر کے طور پر پیش کی جائے کہ گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ ء پارینہ را۔ تو بات یوں ہے کہ یہ بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ،اندھیر نگری چوپٹ راج، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاج، اردو زبان میں مستعمل تمام کہاوتیں اور محاورے اپنے پس منظر میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں رکھتے ہیں جن کی وجہ سے یہ کہاوتیں بنتی ہیں، اس کہاوت کے پیچھے بھی ایک چھوٹی سی کہانی ہے، وہ کہانی سنانے سے پہلے ذرا اندھیر نگری کے کچھ حالات تو بیان کردوں، کیونکہ وطن عزیز کے معروضی حالات اور انھدھیر نگری کے حالات میں غضب کی مماثلت ہے۔
احوال اس نگری کا کچھ یوں ہے ۔ وہاں کے راجا جی خود کو عقل کل سمجھتے تھے. اپنے بارے میں انصاف پرور، بہادر اور با اصول اور بہت ذہین ہونے کا بھی گمان رکھتے تھے، راجا صاحب نے وزراء اور مشیران کی ایک فوج ِ ظفر موج بھرتی کررکھی تھی جن کا سب سے بڑا وظیفہ دن رات راجا جی کی خوشامد کرنا اور انہیں یہ یقین دلانا ہوتا تھا کہ سب امن ہے خوش حالی ہے، عوام خوشحالی و خوشیوں سے نہال ہاتھ اٹھا اٹھا کر اپنے راجاکو دن رات دعائیں دے رہے ہیں ۔ نیزراجا جی نے خود کو قاضی القضاۃ کے عہدے پر بھی فائز کر رھا تھا۔ چھوٹی عدالت سے مشکل ترین سمجھے جانے والے مقدمات کبھی کبھار راجا جی کو بھیج دئے جاتے تھےاور بشرطِ فرصت راجا جی انصاف کا بول بالا کیا کرتے تھے۔
خوشامدی وزراء اور مشیران نے تعریفیں کر کر کے راجا جی کو مزید بانس پر چڑھا رکھا تھا۔، راجا جی نے بے مثال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سارے راج میں ہر اک شئے کے نرخ ایک جیسے مقرر کر رکھے تھے یعنی ہر شئے ٹکے سیر، اور یوں اپنے تئیں انہوں نے مہنگائی کو قابو کر رکھا تھا،پاس پڑوس اور دور دراز کی دیگر ریاستوں میں اندھیر نگری کے بارے میں کئی واقعات بطور لطائف مشہور تھے، دیگر ریاستوں کے راجا اپنی اپنی محفلوں میں اندھیر نگری اور اس کے راجا کے واقعات خوب مزے لے لے کر دہرایا کرتے تھے،
راجہ جی اگر کبھی اپنی ذاتی البیلی مصروفیات اورمحل کی حسین و جمیل رانیوں و داسیوں سے کبھی فرصت پاتے (جو ذرا مشکل ہی سے ملتی) اور ان کے کان میں کوئی ایسی بات پڑجاتی جو انہیں اندھیر نگری کے بارے میں تشویشناک محسوس ہوتی تو فورا وزراء و مشیران کو بلا کر باز پرس اور تفتیش کرتے کیونکہ راجہ بے حد نیک اور خدا ترس انسان تھے۔ وزیر اپنی مکھن پالش کی مہارتیں استعمال کر کے انھیں تسلی دیتے کہ حضور! یہ ذرائع ابلاغ کی کارستانی ہے تا کہ عوام کو آپ کے خلاف کریں۔ یہ سب افواہ سازی ہے ۔ آپ بالکل فکر مند نہ ہوں، راج میں سب امن و امان سب کشل منگل ہے،آپ فکر مند نہ ہوں، اپنی خواب گاہ میں حسبِ سابق آرام فرمائیے۔۔ مگر پھر بھی راجا صاحب محل کے جھروکے سے اپنی پرجا سے خطاب فرماتے اور انہیں پریشان نہ ہونے، نہ گھبرانے اور خوش رہنے وغیرہ کی تلقین ضرور کیا کرتے تھے۔
تو قارئین کرام ،اندھیر نگری کے حالات و واقعات تو اتنے دلچسپ اور طویل ہیں کہ ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے اور ان کے سامنے ہمارے پیارےپاکستان میں پیش آنے والے عجیب و غریب حالات و اقعات بھی پھیکے پڑ جائیں گے، مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے مختصر کرتا ہوں کہ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں،اور اب کہانی کی طرف آتا ہوں۔
ایک دفعہ ایک سیلانی گرو اور چیلا گھومتے پھر تے اندھیر نگری آ نکلے، چیلا ذرا پیٹو سا تھا،جب چیلے کو معلوم ہوا کہ یہاں تو ہر چیز ہی ٹکے سیر ہے، تو وہ تو بڑا خوش ہوا اور گرو سے کہا کہ گرو جی، بس اب تو یہیں لمبا قیام کریں گے خوب کھائیں گے پئیں گے، گرو ذرا سیانا تھا ،بولا ، چیلے ! یہ ٹھیک نظام نہیں بلکہ یہ خطرے کی بات ہے، ایسی جگہ جہاں سب دام برابر ہوں میں نے پہلے نہیں دیکھی، چل یہاں سے نکلتے ہیں، کسی مصیبت میں نہ پڑ جائیں، چیلہ نہ مانا تو اس کی ضد کے آگے گرو بھی مجبور ہوکر وہیں ٹھر گیا، چیلا کیونکہ کھانے پینے کا بہت شوقین تھا، لہذآخوب کھاتا پیتا اور مزے اڑاتا، کھا کھا کر ڈشکرا ہو گیا۔
راجا جی کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا ایک کوچبان کے گھوڑے کے بدکنے سے گھوڑا گاڑی الٹی اور ایک آدمی دب کر ہلاک ہوگیا، راجا نے کوچبان سے کہا کہ تمھیں پھانسی دی جائے گی، پر جیسا راجا ویسی پرجا، وہ بولا ،جناب، میرا کیا قصور، ایک عورت پیروں میں پازیب تھے وہ گھوڑے کے قریب سے گزری تو شرارتا پیر زور سے چھن چھنائے، تو گھوڑا بدکا، ذمہ دار تو پھر عورت ہوئی، عورت کو بلایا گیا، اس نے کہا کہ سنار نے پازیب میں چھنچھناہٹ تیز بنائی تھی میں تو آرام سے ہی چل رہی تھی، سنار ذمہ دار ہے، القصہ مختصر سنار کو بلایا، تو اس نے ذمہ داری کسی اور پر گھما کر اپنی جان بچائی یہ سلسلہ کافی لمبا چلا اور بالاآخر ایک فرد بے چارہ ایسا پھنس گیا جس کو کوئی بہانہ نہ مل سکا، چنانچہ اس روتے بلکتے شخص کو پھانسی گھاٹ لے جایا گیا، جلاد نے پھندا گلے میں ڈلا تو وہ ڈھیلا نکلا، راجا کو بتایا گیا، وہ گرو اور چیلا بھی وہاں پھانسی کا تماشہ دیکھنے کو کھڑے تھے، تو راجا نے کچھ غور و فکر کے بعد کہا کہ ترتیب وار تمام ملزمان جو تفتیش سے گزرے ہیں سب پر پھندا ڈال کے دیکھا جائے، جس کے بھی فٹ آ جائے اسے ہی پھانسی دے دی جائے، مشیران نے اس فیصلے پر فورا داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے،اتفاق سے سارے ہی ملزمان پتلی گردن کے تھے چناچہ پھندا کسی کے بھی فٹ نہ آ سکا۔
راجا بڑا حیران ہوا، کچھ سوچ بچار کے بعد حکم جاری کیا کہ یہ جو مجمع تماشہ دیکھنے آیا ہوا ہے اس میں سے تلاش کرو کہ سب سے موٹی گردن کس کی ہے ،اسے ہی پھانسی دے کر انصاف کا بول بالا کیا جائے۔۔ چیلہ جو کھا کھا کر سانڈ ہو چکا تھا وہ زد میں آ گیا اور اس کےگلے میں پھندا بھی فٹ ہوگیا اسے لے جانے لگے تو وہ زورسے چیخا کہ گرو جی بچاؤ، گرو نے غصہ سے کہا ،میں نہیں کہتا تھا کہ یہاں سے نکل چل، اب بھگت، وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا، گرو کو ترس آ گیا، اس نے راجا سے کہا کہ میرے چیلے کی بجائے مجھے پھانسی دے دو، راجا نے حیران ہوکر اس بات کی وجہ دریافت کی کہ بھئ گرو جی تم کیوں اپنی جان گنوا رہے ہ؟ تو گرو نے جواب دیا، کہ راجا جی، میرے گیان دھیان نے حساب کتاب نے مجھے بتایا ہے کہ اس سمے جو پھانسی چڑھے گا سیدھا سورگ (جنت) میں جائے گا،تو میں اب سورگ میں جاکر مزے کیوں نہ کروں، راجا نے یہ سن کر کہا کہ یہ بات ہے تو پھر سورگ میں میں جاؤں گا اور یہ کہہ کر پھانسی پر جھول گیا اور گرو و چیلہ سر پر پائوں رکھ کر وہاں سے بھاگ نکلے۔
گرو نے تو ااپنے چیلے کو اندھیر نگری کے اندھیر سے کسی نہ کسی طرح بچا ہی لیا ، پر بھیا ہمیں کون بچائے گا؟ یہ سوال ذرا غور طلب ہے۔۔(خرم علی عمران)