تحریر: عطاالحق قاسمی۔۔
کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی ہم سفر کے قافلے سے بچھڑ جانے کی خبر سننے کو نہ ملتی ہو، میرا دیرینہ قلمی ہم سفر رفیق ڈوگر اس ہفتے مجھ سے جدا ہو گیا۔ پیارا دوست اور خوبصورت شاعر روحی کنجاہی بھی ہمیں چھوڑ کر عدم کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ بائیں بازو کے صفِ اول کے دانشور پروفیسر مہدی صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میری عادت ہے کہ جن سے معمولی سی بھی راہ و رسم ہو میں کبھی کبھار انہیں فون کرتا ہوں اور حال احوال پوچھتا ہوں۔ میرا ایک ریڈر خالد اقبال جو بہت پڑھا لکھا انسان تھا، میں نے اسے گزشتہ روز فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ دو ماہ قبل انتقال کر چکا ہے۔ زمان میرا یونیورسٹی فیلو تھا اور پکا کمیونسٹ تھا، میری اس کے ساتھ یاری تھی اِس لیے اُس کے ساتھ چھیڑ خانی کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ہم دوست اسے ازراہِ تفنن زمان بورژہ کہہ کر پکارتے تھے۔ کل فون کیا تو معلوم ہوا کہ دو ہفتے قبل وفات پا گیا ہے۔ اس سب کے علاوہ میرے بہت پیارے دوست، قائد اور اقبال کے عاشق ڈاکٹر صفدر محمود بھی اپنی یادیں چھوڑ کر وہاں جا بسے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔ رؤف طاہر ایسے درویش دوست کی یادیں بھی ہر لمحہ پیچھا کرتی ہیں۔
اور اب کل عطاء الرحمٰن بھی سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے، میری ان کی دوستی 40برسوں پر محیط تھی، عطاء الرحمٰن اور ہمارے آج اور گزرے کل کے بہت سے اور کالم نگار دوست جماعت اسلامی سے وابستہ رہے تھے مگر بعد میں جمہوریت کے حوالے سے ان کی راہیں جدا ہو گئیں لیکن مولانا مودودی سے ان کی عقیدت برقرار رہی۔ عطاء الرحمٰن بھی انہی دوستوں میں سے ایک تھے۔ وہ جمہوریت کے شہہ سوار کے طور پر سامنے آئے اور ان کا قلم آمریت کے خلاف نشتر کی صورت اختیار کر گیا۔ وہ بہت پڑھے لکھے صحافی تھے۔ کسی زمانے میں ان کا ایک بک اسٹال تھا وہاں جب کبھی ان سے ملاقات ہوتی وہ کتابیں بیچتے کم اور پڑھتے زیادہ نظر آئے۔ عطاء الرحمٰن دیکھنے میں سنجیدہ مگر درحقیقت بہت شگفتہ مزاج تھے، دوستوں کی محفلوں میں جملے کسنے سے بھی باز نہ آتے تھے بلکہ اگر بات جمہوریت کی ہو رہی ہوتی تو وہ جمہوریت کے حوالے سے اپنے کسی بہت قابلِ احترام دوست کی جمہوریت پر پھبتی سن کر لحاظ ایک طرف رکھ دیتے اور آستینیں چڑھا لیتے تھے۔ ان کی زندہ دلی کے جوہر لندن میں کھلے جہاں میثاق جمہوریت کے حوالے سے ایک بڑی تقریب میں پاکستان بھر سے دوسرے کالم نگاروں کے علاوہ لاہور سے میں، عطاء الرحمٰن اور عباس اطہر بھی مدعو تھے۔ اتفاق سے ہم تینوں کے کمرے ساتھ ساتھ تھے اور فارغ اوقات میں محفلیں میرے کمرے میں جمتی تھیں۔ اس دوران عباس اطہر اور عطاء الرحمٰن جو دو علیحدہ علیحدہ نظریاتی کیمپوں سے تعلق رکھتے تھے، کی دوستانہ چھیڑ چھاڑ دیکھنے کی چیز تھی۔ ایک دن عباس اطہر نے عطاء صاحب سے کہا ’’عطاء الرحمٰن میری مانیں تو اب آپ شادی کر لیں‘‘ جس پر عطاء کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے کہا کہ ’’آپ کی موجودگی میں مجھے دوسری شادی کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ یہ سن کر مجھ سے کہیں زیادہ بلند قہقہہ خود عباس اطہر کا تھا۔
عطاء الرحمٰن درویش صفت انسان تھے، عمر کا زیادہ حصہ سفید پوشی میں بسر کیا مگر جب نیو چینل اور روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کا اجرا ہوا تو ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے عطاء الرحمٰن کو ’’نئی بات‘‘ کا چیف ایڈیٹر مقرر کردیا اور اس کے بعد اس اہلِ قلم، جو اب ان کا ماتحت تھا، کی عزت، توقیر اور پروٹوکول کی حد کردی۔ اس کے بعد سے میرا قلبی تعلق ڈاکٹر صاحب سے ہو گیا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ عطاء الرحمٰن ایک لش پش کار میں میرے دفتر تشریف لائے۔ ڈرائیور نے اتر کر کار کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر عطاء صاحب نے اس کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا اور خود دروازہ کھول کر باہر آئے۔ میری ان سے ملاقات طے نہ تھی چنانچہ میں کہیں جانے کے لیے اپنے دفتر سے باہر آیا تھا، انہیں دیکھ کر میں انہیں ساتھ لے کر دوبارہ دفتر میں آ ’’براجمان‘‘ ہوا۔ یہ کار اور یہ ڈرائیور دفتر نے انہیں مہیا کیاتھا۔
آخری عمر میں عطاء الرحمٰن کافی کمزور دکھائی دیتے تھے اور لاٹھی کے سہارے چلتے تھے۔ میں نے چند ماہ قبل جم خانہ میں پندرہ بیس دوستوں کو ڈنر پر مدعو کیا تھا۔ عطاء صاحب کو مدعو تو کیا تھا مگر مجھے خدشہ تھا کہ کہیں اپنی علالت کے باعث نہ آسکیں۔ اس وقت میرے خدشے کو تقویت ملی جب ’’کورم‘‘ تقریباً پورا ہو چکا تھا، مگر عطاء صاحب نہیں پہنچ پائے تھے، کچھ دیر بعد میں نے دیکھا عطاء صاحب لاٹھی کے سہارے خراماں خراماں ہماری طرف چلے آ رہے ہیں۔ بس یہ آخری شام تھی جو ان کی خوبصورت باتوں کے درمیان گزری۔ اب وہ بھی میرے بہت سے دوسرے دوستوں کے ساتھ جا ملے ہیں۔ عطاء سے جب بھی ملاقات ہوتی تھی جاتے وقت کہتے تھے ’’پھر ملیں گے اگر خدا لایا‘‘۔ خدا کا شکر ہے اس دفعہ انہوں نے نہیں کہا تھا۔(بشکریہ جنگ)۔