تحریر:شاکرحسین
لے پالک رمیزہ بٹ کی صحافتی خدمات پر پی ایچ ڈی تو بنتی ہے ناں۔۔۔!
محترم مجید نظامی پاکستانی صحافت کے محسن ومربی ہیں ان کی حیات اوربعدازمرگ ابتک ان کی صحافتی خدمات پر کسی نے پی ایچ ڈی نہیں کی۔لیکن ان کی لے پالک بیٹی رمیزہ نظامی نے جس کم عمری میں اپنے سے دگناعمر کے ایک مستحکم ادارہ نوائے وقت گروپ کا جس بے باکی اورسفاکی سے ستیاناس کیاہے۔اگر ملک میں عدل وانصاف کا بول بالاہوتا تو یقیناچند برسوں کے دوران پورے عالم میں اردوکا دوسرے بڑے اخبار کوچیتھڑے میں تبدیل کرنے پررمیزہ کو پرائڈ آف پرفارمنس ایواراڈ سے نوازاجاتا۔اور سرکاری جامعات کو ہدایت کی جاتی کہ وہ اپنے طالبعلموں رمیزہ کی خامات پر پی ایچ ڈی کرنے کی ترغیب دیں۔لیکن ہائے افسوس کے تحریک انصاف کی حکومت نے بھی رمیزہ بٹ کے ساتھ انصاف نہیں ہوااوراسے ملک کے اعلی ترین ایوارڈ سے محروم رکھاگیا۔ شنید ہے کہ موجودہ حکومت رمیزہ کو اسکاحق دینے کیلئے پرتول رہی ہے۔
ملکی آئین اورقانون کو گھر کی لونڈی بناکر خودساختہ قانون کے ذریعہ صحافیوں کی قبل از وقت 50 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ اوراس سے بڑھ کر رمیزہ نے دنیائے صحافت میں ایک اصطلاح متعارف کرائی ہے۔جس کے تحت ایڈیٹر،چیف رپورٹر،رپورٹرز،سب ایڈیٹرز اور غیرادارتی عملہ کو جبری ریٹائر کرکے بیشتر کو گھر بھیج دیااورکام چلانے کیلئے چند ایک کو پارٹ ٹائمر کے لیٹر(جزوقتی ملازم)تھمائے گئے ہیں کراچی آفس میں گنتی کے جو چند ملازمین ہیں سب کے سب پارٹ ٹائمر ہیں آج کراچی آفس میں ایک بھی ریگولر ملازم نہیں ۔۔مقصد ملازمین کو ویج بورڈ ایوارڈ اور آئی ٹی این ای میں کیس کرنے کے حق سے محروم رکھناہے کیونکہ پارٹ ٹائمرسے کام تو پورے آٹھ گھنٹے لئے جاتے ہیں مگروہ ادارے کا ملازم نہیں ہوتا۔لہذاوہ کسی قسم کی مراعات نہ کلیم کرسکتاہے اورنہ اس کے لئے کسی عدالت کا در پہ جاسکتا ہے۔۔رمیزہ کی اس عقل سلیم پر صحافتی حلقے اسے دادوتحسین دے رہے ہیں۔
مذید کارنامے جو صحافت کے طالبعلموں کو رمیزہ کی خدمات پر پی ایچ ڈی کرنے پر اکسارہیں۔وہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار نوائے وقت کراچی آفس میں تین سب ایڈیٹرز سے ان میں اگر ایک چھٹی پر ہوتو دوسب ایڈیٹر کے ذریعہ صرف لوح تبدیل کرکے تین ایڈیشن نوائے وقت کراچی ،نوائے وقت کوئٹہ اورنوائے وقت گوادر نکال کرکروڑوں کے اشتہارات پکڑ رہی ہے۔۔سرکاری اورپرائیویٹ اداروں کو بڑی دیدہ دلیری اورڈنکے کی چوٹ پر چونالگایاجارہاہے۔یہ ہنر تو پوری زندگی صحافت کی نذر کرنے والے محترم میرخلیل الرحمن ،محترم حمید نظامی ،محترم مجید نظامی سمیت صحافت کے بڑے بڑے پنڈتوں کو بھی نہیں سوجا۔تو آپ مان لیں کہ برطانوی یونیورسٹی کی گریجویٹ رمیزہ بٹ نے اپنی ذہانت سے صحافت کے نامور اوربڑے بڑے پنڈتوں کو چاروں شانے چت کیاہے ۔۔۔
توکیا خیال ہے رمیزہ بٹ کی حیات و خدمات پر پی ایچ ڈی تو بنتی ہے ناں۔۔۔؟
اس کے علاوہ محترمہ سرکاری سرپرستی میں اپنے ملازمین پر ظلم وستم کی جو تاریخ رقم کررہی ہیں۔جس طرح ملازمین کو بھوک وافلاس سے مارا جارہا ہے۔تیس اورچالیس برس خدمات انجام دینے والوں کو چھ چھ ماہ کی کرنٹ سلیری کے بغیر ہی چلتاکردیا۔آج وہ بوڑھے ضعیف جنہیں اب نوکری پر بھی کوئی نہیں رکھ رہا۔۔پائی پائی کے محتاج ہوئے بیٹھے ہیں۔۔۔بھائی یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔اس کے لئے آپ کا مثانہ بھی فولادی ہونا چاہئے۔ مجھے یقین ہے صحافت کا گلاگھونٹنے والی اس عورت کی زندگی میں ہی کوئی طالبعلم اس کے سیاہ کارناموں پر پی ایچ ڈی کرلے گا۔۔ ۔۔(شاکر حسین)