تحریر: محمد اعظم الفت۔۔
محترم ممبرانِ کوئٹہ پریس کلب و بلوچستان کے صحافیوں،
ایک جمہوری معاشرے میں آزاد صحافت بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لیکن یہ بات سب بخوبی جانتے ہیں کہ بلوچستان میں صحافیوں کو حقائق رپورٹ کرنے پر مختلف نوعیت کے دباؤ کا سامنا ہے۔جو نہ صرف آزادیٔ صحافت پر حملہ ہے بلکہ عوام کے معلومات تک رسائی کے حق کو بھی متاثر کرتا ہے۔
بلوچستان میں آزادیٔ اظہار پر عائد پابندیاں باعث تشویش ہیں۔ صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ سنسرشپ، ہراسانی اور دھمکیوں جیسے مسائل صحافیوں کی آزادی کو محدود کر رہے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر آواز بلند کریں تاکہ صحافت اپنے اصل مقصد یعنی سچائی اور انصاف کے فروغ کو پورا کر سکے۔
اس خط کے ذریعے میں آپ کی توجہ ایک اہم اور بنیادی مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو ہمارے صحافتی ادارے، کوئٹہ پریس کلب، کے شفافیت، مساوات اور صحافیوں کے حقوق سے براہِ راست تعلق رکھتا ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کوئٹہ پریس کلب کا قیام صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد صحافی برادری کے مسائل کو اجاگر کرنا، ان کے حقوق کا دفاع کرنا اور صحافیوں کو آزادانہ اور غیر جانبدار ماحول فراہم کرنا تھا۔ تاہم، بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں یہ اصول پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں۔
پریس کلب کے آئین کے مطابق، کوئی بھی سرکاری ملازم یا اخبار مالک پریس کلب کا ممبر نہیں بن سکتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ نہ صرف یہ کہ سرکاری ملازمین اور اخبار مالکان کو ممبر بنایا گیا بلکہ وہ کلیدی عہدوں پر بھی براجمان رہے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ ان محنت کش صحافیوں کے ساتھ ناانصافی بھی ہے جو اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے صرف صحافت پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ چند صحافیوں اور اخبار مالکان نے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ذاتی مفادات حاصل کیے، مالی طور پر مستحکم ہو گئے اور کروڑ پتی بن بیٹھے۔ اس کے برعکس ایک عام صحافی، جو شب و روز محنت کرتا ہے، وہ بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بھی مشکلات کا شکار ہے۔
حالیہ دنوں میں مختلف میڈیا اداروں نے کوئٹہ میں اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں اور درجنوں صحافیوں کو بےروزگار کر دیا ہے۔ بول نیوز، جی این این، 24 نیوز، ڈان نیوز سمیت کئی اداروں نے اپنے بیورو دفاتر ختم کر دیے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم سب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں اور ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔
میں کوئٹہ پریس کلب کے ذمہ داران، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس (بی یو جے) اور تمام صحافی برادری سے اپیل کرتا ہوں کہ:
- *پریس کلب کے آئین پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔*
- *سرکاری ملازمین اور اخبار مالکان کی ممبرشپ فوری طور پر معطل کی جائے۔*
- *بیروزگار ہونے والے صحافیوں کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور ان کی بحالی کے لیے آواز بلند کی جائے۔*
- *پریس کلب میں مالی معاملات کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور احتساب کا مؤثر نظام نافذ کیا جائے۔*
- *اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیےٹھوس اور عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ صحافی بغیر کسی خوف کے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔*
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے متحد ہو کر کھڑے ہوں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور شفاف صحافتی ماحول میسر آ سکے۔
ہماری خاموشی ان قوتوں کو مزید مضبوط کرے گی جو صحافیوں کے حقوق سلب کر رہی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی آواز بلند کریں اور اس ناانصافی کے خلاف جدوجہد کریں۔
ایک مضبوط اور آزاد صحافت کے لیے، ہم سب کو متحد ہونا ہوگا۔آپ کا مخلص۔(محمد اعظم الفت)۔۔