تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یو جے ) کے بعض ذمہ داران کی طرف سے یہ نیا فلسفہ پیش کیا جارہا ہے کہ نیوز پیپرز ایمپلائیز (کنڈیشنز آف سروس) ایکٹ( نکوسا) سنہ انیس سو تہتر اب قابلِ عمل نہیں رہا اور مالکان کواپنی مرضی کے مطابق ہی کارکنوں کی اجرت کا تعین کرنے کا اختیار ہونا چاہئے اس میں کارکنوں کو روزگار کا تحفظ دیا جائے ، اس ضمن میں ن دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ” نکوسا ‘ صرف اخباری کارکنوں پر لاگو ہوتا ہے اور الیکٹرانک میڈیا پر اس کا اطلاق نہیں ، اخبارات سکڑتے ہوئے دم توڑ رہے ہیں اور میڈیا انڈسٹری میں کارکنوں کی بڑی تعداد کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے ۔ یادرہے کہ ’نکوسا ‘ کو ختم کروانے کے لئے میڈیا مالکان کی تنظیم اے پی این ایس ہمیشہ متحرک رہی ہے اور اس مقصد کے لئے اس نے سرتوڑ کوشش کی ہے جس کے خلاف پی ایف یو جے اور ایپنک ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہی ہیں اور’ نکوسا ‘کا تحفظ کیا ہے لیکن اب اگر پی ایف یو جے کے بعض ذمہ داران انتہائی غیر ذمہ داری کے ساتھ یہ نیا فلسفہ پیش کرررہے ہیں یا متعارف کروانے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ اخباری کارکنوں کے ساتھ خوفناک مذاق اور آنے والے وقت میں منظم سازش کہلائے گا کیونکہ یہ تو اے پی این ایس کے موقف کی تائیدو حمایت ہے ۔یہ فلسفہ پیش کرنے والے پی ایف یو جے کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ’ نکوسا ‘میں روزگار کے تحفظ اور اجرت دلانے کا کوئی قابلِ عمل طریقِ کار نہیں اور کارکنوں کو اس سے فائدہ نہیں پہنچ رہا، یہ دلیل قانون سے نابلد ہونے اور میڈیا مالکان کے موقف کی اندھا دھند حمایت اورکارکن دشمنی کے ماسوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ اس عہدیدار کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ حکومت کے حالیہ آرڈننس سے ’نکوسا ‘ ختم ہونے سے اس لئے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ حکومت کارکنوں کے روزگار کو میڈیا پروٹیکشن بل میں تحفظ فراہم کرنے والی ہے ۔ ابھی تک یہ موقف پی ایف یو جے کے صرف ایک ہی عہدیدار کی طرف سے سامنے آیا ہے جس کی تائید کسی دوسرے رہنما یا بحیثیت تنظیم پی ایف یو جے کی طرف سے پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی تنظیم کی طرف ایسا موقف پیش کرنا ممکن ہے تو پھر ایسا ”فلر‘ چھوڑنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ؟ کارکن امید رکھتے ہیں کہ پی ایف یو جے کے لاہور میں پندرہ ستمبر سے شروع ہونے والے تین روزہ فیڈرل ایگزیکٹیو کونسل کے اجلاس میں اس معاملے کا جائزہ لے کر وضاحت کی جائے گی اور ’نکوسا‘ کے تحفظ کا تجدیدِ عزم کیا جائے گا اورکارکنوں کو یقین دلایا جائے گا کہ پی ایف یو جے کارکنوں کی حقیقی تنظیم ہے اس کا اپنا موقف ہے ، یہ اے پی این ایس کے جاری کردہ موقف کی اندھا دھند حمایت نہیں کرتی بلکہ کارکنوں کے مفادات کے تحفظ کی پرکھ کے بعد کوئی فیصلہ کرتی ہے ۔ جس وقت پی ایف یو جے کے ایک ذمہ دار عہدیدار اپنا’ فلسفہ‘ پیش کررہے تھے تب ان کے موقف اور سوچ کی پنجاب یونین آف جرنلسٹس ( پی یو جے ) کے ایک سابق صدر نے تصحیح اور درستگی کی کوشش کی لیکن معاملہ ”میں نہ مانوں “ تک محدودرہا ۔ پی ایف یو جے کی ایف ای سی سے کیا یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے منتخب ذمہ داران کو یہ بھی بتائے گی کہ ’نکوسا کے تحت ہی ویج بورڈ تشکیل پاتا ہے جوویج ایوارڈ کا تعین کرتا ہے اور اور اسی ایکٹ کے تحت ویج ایوارڈ عملدرآمدی ٹربیونل ( آئی ٹی این ای)قائم ہوا ہے جس کے چیئرمین کا تقرر خود حکومت کرتی ہے اور متنازع میڈیا دویلپمنٹ اتھارٹی آرڈننس جاری کرنے کے بعد سے حکومت نے آئی ٹی این ای کے چیئرمین کا تقرر نہیں کیا جبکہ وہاں کارکنوں کے مقدمات کی بڑی تعداد زیر التوا ہے ۔(محمد نواز طاہر)۔۔