تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
اسلام آباد میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ( پی ایف یوجے) کے کنونشن میں شرکت کے بعد پنجاب یونین آف جرنلسٹس(پی یوجے) کے عہدیدار لاہور پہنچ چکے ، باقی یونٹوں (شہروں) والے بھی اپنے اپنے گھروں کو پہنچ رہے ہونگے ، میں اسلام آباد سے واپس آنے والے ساتھیوں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کنونشن میں معاشی قتلِ عام کا شکار ہونے ، تنخواہوں کا انتظار کرنے والے اور انتہائی کم اجرت انے والے صحافیوں اور کارکنوں کے لئے تنظیم نے کیا لائحہ عمل دیا ؟ کنونشن میں عام کارکن کے حقوق کے تحفظ کے لئے کیا کیا گیا ؟ تو کچھ گنگ تھے، کچھ جوبولتے ہیں ان الفاظ کا کارکنوں کے قانونی ومعاشی حقوق سے کوئی تعلق نہیں، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو عالی شان ہوٹل کی خوبصورتی اور قیام و طعام اور سیلفیوںپر نازاں تھے ، میں نے مالی معاملات پر اختلافِ رائے بھی محسوس کیا ۔
میرے علم میں یہ بات آئی تھی کہ اسلام آباد جانے والوں نے کرایہ اپنی جیب سے خرچ کیا ؟ ساتھ ہی یہ بھی اطلاع آئی کہ اس پر اچھے خاصے ڈالر خرچ ہوئے ؟ جب ڈالروں میں خرچہ ہوا تو کرائے پر اختلافِ رائے یا گلے شکوے کیسے ؟ وضاحت کے لئے کوئی تیار نہیں ، اس سے پہلے اطلاعات اور مصدقہ اطلاعات تھیں کہ مختلف شہروں میں تنظیم کی اہم شخصیت نے ساتھیوں کو بار بار فون کیا کہ وہ کنونشن میں ضرور پہنچیں ، بھلے جیسے بھی پہنچیں لیکن جب بعض ساتھیوں نے کارکنوں کے معاشی حقوق کا سوال اٹھایا تو ناراضگی کا اظہار کیا گیا یہاں تک کہ باغی ، بدتمیز تک قراردیدیا گیا۔ تنظیم کے اندر یہ کلچر ؟ یہ جمہویت ؟ اور یہ فرعونیت ؟ کم از کم پرانے کارکنوں کے لئے تو توجہ طلب اور حیرت انگیز اورتشویشناک ہے پھر ہم صحافت کی عظمت کے لئے کوڑے کھانے کی ’سعادت‘ کے پرچاری بھی ہیں ، یہ حالات میں نے شادی میں شرکت کے لئے لاہور آنے والے جناب اقبال جعفری سے شیئر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا ؟ ہم ان حالات کا اور خاص طور پر کارکنوں کے قانونی و معاشی حقوق پر تنظیم کے بے اعتنائی کا رونا کس کے سامنے روئیں ؟ قیادت کے حوالے سے تو لاہور ہمیں بنجر اور کنجر ہی دکھائی دیتا ہے، دردِ دل رکھنے والے پرانے لوگ تو یونین کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور جو لوگ سرخیل ہیں وہ کارکنوں سے زیادہ کسی اور کی بات بلکہ وکالت کرتے ہیں ، ان کے چہروں صاف صاف لکھا ہے کہ وہ کارکنوں کے حقیقی نمائندے نہیں ، بلکہ گروپوں کے چیلے ہیں ، دوسری جانب تنظیم کا حشریہ ہے کہ پی ایف یو جے کے اپنے ہی فیصلے کے مطابق یونٹوں کے الیکشن سے پہلے تمام یونٹوں کی ووٹر لسٹ پر تیس اکتوبر تک سیکرٹری جنرل کے کاﺅنٹر دستخط ہوجانا چائیں تھے لیکن لاہور تو ابھی تک کسی کو ووٹر لسٹ دکھائی بھی نہیں دی ، پھر سیکرٹری جنرل کیا پرانی تاریخ ڈال کر کاﺅنٹر سائن کریں گے ؟ الیکشن جعلی و بوگس اور غیر قانونی لسٹ پر ہونگے ؟ کیا سیکرٹری جنرل یہ دستخط بھی ٹیلی فون پر ہی کریں گے ؟
کیا کوئی رہنمائی فرما سکتا ہے کہ جمہوریت ، اصول، قاعدے ،قانون کی بات کرنے والی تنظیم میں یہ سب کیوں ہورہا ہے ؟ اس سارے عمل کی پشت پناہی کون کررہا ہے ؟ کیا یونین کو پھر ایسے مقام پر لایا جارہا جیسے کراچی میں اسے انتخابی نتائج تسلیم نہ کرکے توڑا گیا تھا ؟ کئی سال ہوگئے اب تو سچ مان لینا چاہئے کہ جو انتخابی نتائج مشتاق منہاس نگل گیا تھا ، ان کے مطابق رانا عظیم کو صدر چنا گیا تھا ، لیکن ڈھٹائی کے ساتھ کسی اور کو صدر مانا گیا تھا ، کیا اب ایک بارپھر ہم کسی ایسے ہی لعنتی مرحلے سے گذرنے والے ہیں ؟ یہ درست ہے کہ رانا عظیم نے یونی فکیشن کے عمل سے راہِ فرار اختیار کی تھی اوراس کے گروپ کو ہم تنظیم نہیں سمجھتے لیکن سوال یہ ہے کہ دونوں میں فرق کیا رہ گیا ہے ؟ اس میں بھی ایک خاص انداز سے ’الیکشن ‘ ہوتے ہیں اور ہم نے بھی ایک خاص انداز اختیار کرلیا ہے جبکہ دعویدار ہم سچائی اور قواعدوضوابط کی پاسداری کے ہیں؟ قول و فعل میں اس قدر تضاد کیا ڈھٹائی ، منافقت ،بے شرمی اور تنظیم کاکندے آلے سے قتل نہیں ؟ایسی تنظیم کو ہم یرغمال تنظیم کے طور پر پکاریں یا مقتول تنظیم کے طور پر جانیں ؟ دیانتداری سے مانا جائے تو پی ایف یو جے اس وقت یرغمال بھی ہے اور مقتول بھی ، ضرورت ہے تو اس کے اغواءکاروں اور’ قاتلوں‘کے محاسبے کی ، ضرورت ہے تو اس تنظیم کو ریسکیو کرنے کی ۔(محمد نواز طاہر)۔۔