تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف شدید ردِ عمل واضع کررہا ہے کہ پاکستان میں صحافی ، عام آدمی اور حکومت کیا چاہتی ہے ۔ اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے مختلف آراءپائی جاتی ہیں لیکن جس رائے پر اخباری اور میڈیا کارکن متفق ہیں وہ یہی ہے کہ اس اتھارٹی سے میڈیا کارکنوں کے قتلِ عام کانیا دور شروع ہوگا۔
اخباری کارکنوں کی جدوجہد کی کہانی پاکستان کی تاریخ سے پرانی ہے اور مسائل آج بھی اس سے گھمبیر ہیں جتنی عوام کی بدحالی ، سنہ انیس سو تہتر میں اُس وقت کی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے نیوز پیپرز ایمپلائیز کنڈیشنز آف سروس ) ایکٹ بنایا جس سے کارکنوں کی اشک شوئی ہوئی لیکن اخباری مالکان نے اسے دل سے تسلیم نہ کیا اور اس کے نفاذ میں رکاوٹیں ڈالی اور اسے ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اب اسے حکومت میڈیا ڈویلپمنٹ اٹھارٹی آرڈننس کے ذریعے ختم کردیا ے جس اخباری کارکنوں کے قانون کے تحت تحفظ اور استحقاق پر تلوارچلادی گئی ہے ، الیکٹرانک میڈیا کے کارکنوں کے لئے ابھی تک کوئی قانون بنایا ہی نہیں گیا تھا۔
جہاں تک صحافت کی آزادی کا تعلق ہے تو یہ میڈیا کارکنوں کے لئے شجرِ ممنوعہ ہے ، اب تک حاصل آزادی کے ثمرات صرف اشاعتی و نشریاتی اداروں کے مالکان ، انتظامیہ اور من پسندوں تک محدود ہیں اور عام ، نیوٹرل دیانتدار صحافی اس سے محروم ہے ۔ اب جبکہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا آرڈننس جاری کیا گیا ہے تو اس پر پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار کی قیادت میں شدیدردِ عمل اور مزاحمت کی گئی اس میں سماجی تنظیموں کے بعد اب سیاسی جماعتوں کی آنکھ کھلی ہے تو انہیں نے بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ایف یو جے کی کال کو اپنی کال اور کاز کو اپنا کاز سمجھا ہے ، اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے میں شرکت نے حکومت کی آنکھیں تو کھول دی ہیں اب صرف ڈھٹائی کا پردہ سامنے ہے ، اس میں دلچسپ مدد حکومت کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کی ہے جس نے پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرکے حکومت کے ویژن پر مہر ثبت کردی کہ حکومت کے کارپردازوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ اس ملک کے حقیقی کردار کون ہیں ؟ جو شخص جمہوریت اور صحافت کے بارے میں الف با جانتا ہے وہ ناصر زیدی کے نام سے اگر ناواقف ہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ پہلے روز سکول گیا ہے اور اسے سکول لانے والے قاعدت ، تختی ، سلیٹ۔ قلم اور کاپی سے ناواقف ہیں ۔ شائد کوئی قاری، سامع یا ناظر ایسا ہوگا جو نہیں جانتا کہ فواد چودھری کے نام سے اخبارات میں مضامین شائع ہوتے رہے ہیں اور ٹی وی پر ان کے بولتی تصویر بھی دیکھی جاتی رہی ہے ، اب اگر یہ کہا جائے کہ فواد چودھری کی تصویر اپنی اور تحریر کسی اور کی ہوتی تو تو کسی حد تک ( بھلے بغض اور حقائق شامل ہوں ) درست ہو لیکن یہ درست ہے کہ فواد چودھری کو لکھنا پڑھنا آتا ہے تعلق بھی پڑھنے لکھے خاندان سے ہے اس کے خاندان میں سے چودھری الطاف حسین پنجاب کے گورنر اور چودھری افتخار حسین لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے ، خود فواد چودھری صحافیوں کے دوستی کے دعویدار رہے اسی دعوے کی بنیاد پر وہ ٹی وی سکرین پر اینکر کی حیثیت سے بھی نمودار ہوئے ۔ انہوں نے ناصر زیدی کے بارے میں جن خیاات اور لاعلمی کا اظہار کیا اس سے وہ خود ہی اینکرز کی اس فہرست میں شامل ہوگئے جنہیں میڈیا کارکن ’پیراشوٹر اینکر زکہتے ہیں ۔ پیرا شوٹرز اینکرز ، صحافی اور تجزیہ کار اسی فیکٹری میں’ تپ‘ کر تیار ہوتے ہیں جہاں سے کئی سیاستدان مارکیٹ میں آئے ۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ فواد چودھری کو ناصر زیدی کا علم نہیں تھا ابتہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ انہوں نے سرکار کی نوکری کے دوران ایک خاص انداز سے اپنی دوستی کا ثبوت دیا اور پی ایف یو جے کی تحریک میں جان ڈال دی میں ذاتی حیثیت میں فواد چودھری کا ممنون ہوں ، ویسے تو ان سے ملاقات ہوئے عرصہ گذر گیا اور ان کے عام آدمی ہونے تک ملاقات ہوگی بھی نہیں نہ ہی میں اس پر یقین رکھتا ہوں اس کا تجربہ مجھے الطاف حسین چودھری مرحوم کی گورنر شپ کے دور میں ہوچکا جب میں کورٹ رپورٹنگ کیا کرتا تھا اور چودھری افتخار حسین ہائیکورٹ کے جج بنے تھے ، تب میں نے چودھری الطاف حسین کے کہنے پر چودھری افتخار حسین سے ایک ملاقات کی تھی اور اس کا احوال سن کر چودھری الطاف حسین نے اپنے بھائی کے بارے میں ناقابلِ تحریر الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے بندے کی پہچان نہیں اور مجھ سے معذرت کی ۔ چودھری الطاف حسین پڑھے لکھے قابل آدمی تھے جج صاحبان ان کی تحریروںسے رہنمائی لیا کرتے تھے ۔ فواد چودھری اسی خاندان کا چشم و چراغ ہے جس سے کسی تک خاص روشنی اور کسی تک خاص” سیک“( تپش) پہنچتی ہے۔ حوالہ ذرا طویل ہوگیا لیکن کچھ کریڈنشل کلیئر ہوگئے ۔
با ت میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی، اس کے خلاف پی ایف یو جے کی مزاحمت اور سیاسی جماعتوں کی اس میں شرکت کی ہورہی تھی تو یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ جماعتیں ملک کی حکمران رہی ہیں اور انہیں بھی میڈیا اور پرسنز سے وہی شکایات رہی ہیں جو موجودہ حکومت کو ہیں ، ان جماعتوں کے خلاف بھی صحافی سراپا احتجاج رہے ہیں یہاں تک کہ گذشہ دورِ حکومت میں جب ن لیگ اقتدار میں تھی تو اس کے آخری ایام میں پی ایف یو جے کا دھرنا اسی کے خلاف طے تھا جو اُس وقت کی ن لیگ کی حکومت نے کامیاب مذاکرات کے ذریعے رکوادیا تھا۔ اب حکومت کیوں مذاکرات کی میز پر نہیں آتی ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر کوئی پوچھ رہا ہے لیکن جواب کسی کے پاس نہیں حالانکہ مذاکرات کی ٹیبل پر حکومت فائدے میں رہے گی اس کے مئی مسائل حل ہونگے ، میڈیا کارکنوں کے مسائل بھی حل ہونگے ، جب مذاکرات کی ٹیبل پر کارکنوں اور حکومت کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں تو پھر کیوں حکومت مذاکرات کا راستہ اختیار نہیں کرتی ؟ کون کون سی قوتیں ہیں جو ان مذاکرات کا راستہ روک رہی ہیں ؟ حکومت کو مِس گائیڈ کرنے والے مسلسل مِس گائیڈ کرتے جارہے ہیں اور پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے جارہے ہیں جس سے حکومت کو اپنے مقاصد میں ناکامی اور خفت و شرمندگی کا سامنا ہی کرنا پڑے گا، ابھی بھی مناسب وقت ہے کہ حکومت باصلاحت، سمجھدار لوگوں کو مکمل اختیارات اور میڈیٹ دیکر صحافیوں کی قیادت سے مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھ جائے ورنہ تاریخ میں ہٹ دھرم ، ناکام ، ناسمجھ کہلائے گا جس کا اسے بھی اور صحافیوں کو بھی نقصان ہوگا، صحافی تو اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور سیاسی جماعتوں سے ان کے اقتدار میں آنے پرآج کی کمٹمنٹ پر عملدرآمد کروا لیں گے لیکن تب موجودہ حکمران کہاں کھڑے ہونگے ؟ ان کے الزامات کیا ’فیک نیوز‘ قرار نہیں پائیں گے ؟ کیا سیاستدان اور حکمران اس سے انکار کریں گے کہ وہ اسمبلی میں بھی کئی بار مخالفین پربغیر ثبوت جھوٹے الزامات لگاتے ہیں جو شائع اور نشر ہوتے ہیں ؟ کیا اسمبلی کی کارروائی رپورٹ کرنے سے پہلے صحافی حکومت اور اپوزیشن کی ہر بات کے تحریری ثبوت طلب کرسکتے ہیں ؟ کیونکہ کسی کی باتکی قابلِ اعتماد تصدیق تک شائع اور نشر ہونے والی خبر اور بیان سبھی ’فیک نیوز‘ کے زمرے میں آتے ہیں ، یہی’ فیک نیوز‘ حکومت ختم کرنا چاہتی ہے ۔ ایک ’فیک ماحول‘ میں ’ٹرو نیوز‘ آسان نہیں حکومت کے لئے بھی اور ملک بھی شائد ہر ’ٹرو نیوز‘ کا متحمل نہیں ، جہاں تک پی ایف یو جے کی بات ہے تو پی ایف یوجے ہمیشہ صحت مند صحافت کی علمبرداررہی ہے ۔(محمد نواز طاہر)۔۔