pfuj ki railee sahafion ki aalmi tanzeem ki sadar ki shirkat

پی ایف یوجے کی ریلی،صحافیوں کی عالمی تنظیم کی صدر کی شرکت۔۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا آئی ایف جے کی صدر ڈومینک پراڈیلی، پی ایف یو جے کے صدر رانا عظیم اور سیکرٹری جنرل شکیل احمد کی قیادت میں پیکا ایکٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ اور ریلی، پورے ملک میں 21 اور 22 فروری کو احتجاج کیا جائے گا۔ ریلے شرکا نے ایمبیسی روڈ سے ڈی چوک کے سامنے تک ریلی کے بعد دھرنا دے دیا۔ اس دوران اسلام آباد پولیس اور پی ایف یوجے کے صدر رانا عظیم کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی مگر ریلی کے شرکا پولیس کی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ڈی چوک تک پہنچ گئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں صحافیوں کے منتخب نمائندوں نے احتجاجی ریلی اور دھرنے میں حصہ لیا اور پیکا ایکٹ کے خلاف نامنظور، نامنظور پیکا ایکٹ نامنظور اور کالا قانون واپس لو، کے نعرے لگائے۔ اس موقع پر آئی ایف جے کی صدر ڈومینک پرآڈیلی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی ایف یوجے کے صدر رانا عظیم کی دعوت پر پاکستان کے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایف جے صحافیوں کی آواز دبانے اور اظہار رائے پر قدغن لگانے والے پیکا جیسے قوانین کے خلاف ہے لہذا آئی ایف جے اس قانون کو مسترد کرتی ہے۔ میں اس قانون کے خلاف احتجاج میں شرکت کے لیے پاکستان آئی ہوں۔ ہم پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور حکومتی اداروں کی کارروائیوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں آئی ایف جے کو متحرک کردیا ہے۔ ہم دنیا بھر میں پاکستان کے صحافیوں کے خلاف ہونیوالے اقدامات کو اجاگر کرینگے۔ صدر آئی ایف جے نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان آزادی صحافت اور اظہار رائے کے خلاف قوانین پر نظر ثانی کرے۔پی ایف یو جے کے صدر رانا عظیم خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم فیک نیوز کی آڑ میں آزادی صحافت پر قدغن نہیں لگانے دیں گے۔فیک نیوز دیتا کون ہے ہم بھی اس کے خلاف ساتھ دینگے۔انتظامیہ کان کھول کر سن لے کہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں۔صدر پی ایف یو جے رانا عظیم نے کہا کہ پیکا کے خلاف منظم تحریک شروع کر دی ہے۔ آج کا دھرنا اس کا ٹوکن آغاز ہے۔ اگلے مرحلہ میں ملک بھرمیں 21 اور 22 فروری کو پورے پاکستان میں احتجاج کریں گے اور کہا کہ پورے پاکستان کے گلی محلے اور پریس کلبوں کے سامنے احتجاج ہوگا۔حکمران سن لیں نہ پارلیمنٹ دور ہے اور نہ اسلام آباد دور ہے۔ اب ملک بھر میں چاروں صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج ہوگا۔ پیکا قانون کی واپسی تک اسلام آباد میں مستقل رہنا بھی پڑا تو رہیں گے۔پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل شکیل احمد نے کہا کہ حکومت نے پاکٹ یونینز بنا رکھی ہیں جن کی مدد سے صحافیوں پر کالے قانون لاگو کرتی ہے کبھی جعلی احتجاج کرواتی ہے اور کبھی پریس کلبوں میں اپنے گلوں میں ہار ڈلواتے ہیں۔ ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے صحافتی ورکرز کا استحصال ہو رہا ہے۔ سابق صدر پی ایف یو جے جی ایم جمالی کا کہنا تھا کہ ہم نے ہمیشہ پر امن جدوجہد کی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے کالا قانون پیکا کا قانون ہے۔ یہ قانون صرف صحافیوں کے لیے نہیں بلکہ یہ سارے پاکستانی شہریوں کے خلاف ہے۔پاکستان نے اقوام متحدہ کے ساتھ آزادی اظہار رائے کے چارٹر پر دستخط کیے ہیں۔ پیکا ترمیمی قانون اقوام متحدہ کے اس چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص موبائل نہیں رکھ سکتا جب تک اتھارٹی کے پاس اس کی رجسٹریشن نہ کروائے۔ جن پارلیمنٹیرینز نے اس قانون کو منظور کروایا انہوں نےاس کو پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ پی ایف یو جے کے دھرنے سے سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بند کیا گیا۔ کالے قوانین کے ذریعے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ پنجاب کے اندر بھی ہتک عزت قانون منظور کیا گیا اس سے اظہار رائے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پی ایف یو جے کی قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے کالے قوانین کے خلاف ریلی نکالی ہے۔ پی ایف یو جے کے سینئر راہنما حسن عباس نے کہا کہ حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں بلکہ وہ اپنی تنخواہوں اور مراعات بڑھانے میں مکھن ہیں جبکہ صحافیوں کی زبان بندی کر رہے ہیں تاکہ وہ ان کے کرتوت سامنے نہ لا سکیں۔ ان کاکہنا تھا کہ ہم سچ کو سامنے لانے کے لئے کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور پیکا سمیت کسی کالے قانون کی پرواہ نہیں کریں گے۔ پی ایف یو جے کے سینیر راہنما جمیل مرزا نے کہا کہ پیکا کو مسترد کرتے ہیں اور صحافیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے اس کے لئے وہ تمام رکاوٹوں کوعبور کریں گے مگر پیکا قوانین کے خاتمہ کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں