تحریر: عبدالولی۔۔
کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا تو آسان ہے لیکن حقائق کو ہمارے معاشرے میں تسلیم کرنا ایک مشکل کام سمجھا جاتا ہے۔اگست میں وفاق کے ساتھ سندھ اسمبلی کو بھی تحلیل کرنے پر غور جاری ہے۔سندھ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔
دوہزاراٹھارہ میں وفاق سمیت پنجاب اور پختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی یہ الگ بحث ہے کہ کس طرح حکومت میں لایا گیا۔کون نہیں جانتا کہ کس طرح سے عمران خان نے اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کی بلکہ دیوار سے لگاکر رکھا روز عدالتوں کے چکر لگوائے سندھ کے وزیر اعلی بھی ان میں شامل تھے اور عدالت پیش ہوتے رہے۔
عمران خان نے نہ صرف اپوزیشن کو جیلوں میں رکھا بلکہ سندھ حکومت کو فنڈ سے بھی محروم رکھا۔اس تمام تر کے باوجود بھی سندھ حکومت نے کام کرنے کی کوشش کی،محکمہ ٹرانسپورٹ نے خواتین کےلئے پہلی بار پنک بس سروس ہو یا پھر ملک میں پہلی الیکٹرک بس ہو اس کا سہرا حکومت سندھ کو ہی جاتا ہے۔
صحت کے شعبے میں بھی حکومت سندھ باقی صوبوں سے پیچھے نہیں ادارہ برائے امراض قلب ،گھمبٹ اسپتال ،ادارہ برائے امراض اطفال ہو یا دیگر ہزارں شہری مفت علاج کی سہولت سے مستفید ہورہے ہیں۔ملک کے مخلتف شہروں سے شہری علاج کےلئے آتے ہیں۔جو قابل تحسین ہے۔
زراعت میں بھی حکومت سندھ کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔سیلاب سے متاثرہ کاشت کاروں اور آباد گاروں کےلئے 26 ارب روپے مختص کئے گئے،کاشت کاروں کو 80 فیصد سبسڈی پر 300 سولر ٹیوب ویل اور 23 جدید ہل فرایم کئے گئے۔
تعلیم کے حوالے سے سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔خامیاں ضرور ہے لیکن تعلیم کے شعبے میں جس طرح وزیر تعلیم سردار شاہ نے ملک میں پہلی بار ٹیچنگ لائسنس کے اجرا کو یقینی بنایا یہ تعلیمی میدان میں انقلاب سے کم نہیں ہے۔
کراچی جو ہمیشہ سے ایم کیو ایم کا رہا پہلی بار میئر پیپلز پارٹی کا کامیاب ہوا ہے۔اب سب سے بڑا امتحان مرتضی وہاب کا ہوگا کہ وہ کس طرح اپنی کارکردگی سے شہریوں میں ناامیدی کی فضا کو ختم کرتے ہے۔
فیصلہ الیکشن میں عوام نے کرنا ہے نہ کہ سوشل میڈیا یا پھر ٹک ٹوک پر زیادہ لائکس سے کوئی وزیر اعظم منتخب ہوگا۔چند ماہ بعد ہی الیکشن ہے۔عوام اپنے ووٹ سے کارکردگی دیکھ کر ہی فیصلہ کریگی۔(عبدالولی)۔۔