channels ko ahtejaaj ki coverage karne se rok dya gya

پیمرا سے اپنا کام نہیں ہوتا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ۔۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کے کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ کیس سابق چیف جسٹس کا سن رہا ہوں تو کیا آپ چاہتے ہیں آئندہ چیف جسٹس بھی یہی سن رہا ہو،آپ یہ بتائیں پیمرا سے اپنا کام نہیں ہو رہا ، آپ یہ بھی اسی سے کراناچاہتے ہیں۔ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کے کیس کی سماعت ہوئی، جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے درخواست دائر کررکھی ہے ،چیف جسٹس عامرفاروق نے درخواست پر سماعت کی،جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے وکیل عمر اعجاز گیلانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ چیئرمین آئی ٹی این ای کو کچھ ہفتے بلایا گیا تھا لیکن وہ موجود نہیں ، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ وزارت قانون کا کام ہے آپ نے ان سے ہی کام لینا ہے ، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزارت قانون سے آپ نے یہ ڈرافٹ شیئر کیا ہے؟چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ چیئرمین آئی ٹی این ای نے آپ کو ایک چیز بھیجی ہے، اگلا کام آپ نے خود دیکھنا ہے، اس پر کام ہورہا ہے تو تیز ہونا چاہئے پھر الیکشن آ جائیں گے ، نئی حکومت آئیگی لٹک جائے گا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ کیس سابق چیف جسٹس کا سن رہا ہوں تو کیا آپ چاہتے ہیں آئندہ چیف جسٹس بھی یہی سن رہا ہو،آپ یہ بتائیں پیمرا سے اپنا کام نہیں ہو رہا ، آپ یہ بھی اسی سے کراناچاہتے ہیں،ہمارے پاس نیوز پیپرایمپلائز سے متعلق لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے کیسز آتے ہیں، جو ایمپلائز اصل سٹیک ہولڈرز ہیں ان سے اس حوالے سے مشاورت ضروری ہے ۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ جو فورم ان کو ملنا ہے وہ ملنا چاہئے ،عدالت نے پیمرا کے ڈرافٹ کی کاپی فریقین سے شیئر کرنے کی ہدایت کردی ۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ نئے الیکشن کے بعد حکومت آئے گی تو اسے نئے سرے سے سمجھانا پڑے گا،ایک مومینٹم بنا ہوا ہے ، اس کو جلدی کریں ، مجھ سے پہلے کیس کو چیف جسٹس سن رہے تھے، آپ چاہتے ہیں اب میرے بعد کوئی اور سنے؟آپ نجانے کیوں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ، کام روکنے سے کچھ نہیں ہوتا مگر نقصان ہی ہوتا ہے،یہ تو نہیں ہوتا عدالتیں سارے فیصلے 100 فیصد درست کرتی ہیں پیرا سے تو اپنا کام نہیں ہوتا، مجھے نہیں معلوم میڈیا انڈسٹری میں ایسی صورتحال کیوں ہے؟میڈیا استحصال کی اس سے زیادہ کوئی مثال نہیں ہو سکتی،یہ معاملہ قانون سازی میں جارہا ہے تو اسے جانے دیں ، قانون سازی کیلئے میڈیا انڈسٹری کے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہونی چاہئے ،کیس 2021 سے چل رہا ہے، سمجھ نہیں آرہی اس میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے،ابھی قانون سازی نہیں ہوئی اور حکومت تبدیل ہوئی تو معاملہ مزید ایک سال کیلئے لٹک جائے گا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ نے جو کام کرانا ہو وہ 24 گھنٹے میں بھی کرا لیتے ہیں ، اچھی قانون سازی کیلئے ضروری ہوتا ہے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے ، اس سے متعلق تجاویز پر وزارت اطلاعات کو بھجوائی گئیں، ان سے پوچھیں کیوں عمل نہیں ہوا؟ سیکرٹری اطلاعات نے کہاکہ فنانس کا ایشو ہے،چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہاکہ پھر آپ فنانس والوں کو لکھیں اور بتائیں ،عدالت نے پی بی اے کی پٹیشن میں فریق بننے کی درخواست منظورکرتے ہوئے سماعت 3 مارچ تک ملتوی کردی ۔

ابصارعالم حملہ کیس، ملزمان پر فردجرم عائد نہ ہوسکی۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں