channels ko ahtejaaj ki coverage karne se rok dya gya

پیمرا اور صحافی

تحریر: بادشاہ خان۔۔
بادی النظر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ صحافت کے تابوت میں پیمرا آخری کیل گاڑنے جارہا ہے، الیکٹرونک میڈیا مالکان سے ساز باز کے بعد ان کو رعایتیں دی جارہی ہیں،اور دوسری جانب صحافیوں کے لئے خبر کے حوالے سے مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں،ایک بار پھرنئے بل میں کوشش کی گئی ہے،صحافتی تنظیموں نے اگرچہ ان ترمیم کو مسترد کردیا ہے،لیکن کیا صرف مسترد کرنے سے یا ایک آدھے احتجاج سے صحافیوں کے مسائل ختم ہوجائیں گے؟ کیا ایک دو سیمینار کرنے سے پابندیاں ختم ہوجائیں گی؟ کیا کوئی تحریک چلے گی؟ یا نوے کی دہائی کا دوردوبارہ آگیا ہے؟لیکن اب شائد وہ صحافی بھی نہیں رہے، صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔
ایک بار پھرپیمرا بل کے ابتدائیے سمیت 9 سیکشنز میں ترمیم جبکہ 5 نئے سیکشنز کا اضافہ کیاگیا ہے،پیمرا قانون کے 2، 6، 8، 11، 13، 24، 26، 27، 29 کے سیکشنز میں ترامیم کی گئی ہیں بل میں 20، 20 اے،29 اے، 30 بی، 39 اے کی نئی شقوں کا اضافہ کیا گیا ہے بل کے ابتدائیے میں خبر کی جگہ مصدقہ خبر، تحمل وبرداشت، معاشی وتوانائی کی ترقی، بچوں سے متعلقہ مواد کے الفاظ شامل کئے گئے ہیں الیکڑانک میڈیا مصدقہ خبروں، معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواداپنی نشریات میں استعمال کرے گا
ڈس انفارمیشن کی تشریح بھی ترمیم کے ذریعے بل میں شامل کی گئی ہے ’ڈس انفارمیشن‘ سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو، گمراہ کن، من گھڑت، سازباز سے تیارکردہ یا جعلی ہوایسی خبر ’ڈس انفارمیشن‘ کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یاکسی کو ہراساں کرنے کے لئے دی گئی ہو،متعلقہ شخص کا موقف لئے بغیر دی گئی خبر ’ڈس انفارمیشن‘ کی تعریف میں شامل ہوگی
متاثرہ شخص کا موقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر ہوگا یا کوریج دی جائے گی جس طور اس کے خلاف ’ڈس انفارمیشن‘ کو دی گئی ہوگی
’مِس انفارمیشن‘ سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہوگیا ہو،آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آنے والی خلاف ورزی اس بل کے تحت ’سنگین خلاف ورزی‘ تصور ہوگی۔
پیمرا میں کسی بھی ریگولیٹر کے بجائے براہ راست مالکان اور سرمایہ کاروں سے رابطہ کیا جاتا ہے، پیمراسٹیلائٹ چینلز کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے پروفیشنل افراد سے رابطے کو یقینی بنایا جائے نیوز چینلز میں کہنہ مشق صحافیوں کو ڈائریکٹر نیوز تعینات کرکے ان سے رابطہ کیا جائے جس طرح پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کی پوسٹ کوختم یا بے جان کردیا گیا ہے،اسی طرح نیوز چینلز میں جان بوجھ کر ڈائریکٹر نیوز کا عہدہ مضبوط ہونے ہی نہیں دیا گیا اسٹیٹ بینک جس طرح بینک کے صدر اور چیف ایگزیکیٹو کے عہدے کا تحفظ کرتا ہے اور مالکان کسی بھی بینک صدر کو بہ یک جنبش قلم نوکری سے فارغ نہیں کرسکتے ہیں اسی طرح ڈائریکٹر نیوز کی ملازمت کو بھی تحفظ فراہم کیا جائے،پیمرا اس وقت وزارت اطلاعات ونشریات کے ماتحت کام کرتا ہے جبکہ جس وقت یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا وہ اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کے ماتحت تھا۔ پیمر ا کو بھی اس طرح صرف تیکنیکی معاملہ تک محدود کیا جائے، پیمرا اپنے تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے آزادی اظہار آزادی صحافت پر قدغن کا باعث بن رہی ہے موجودہ حکومت صحافیوں کو ان کے جائزوقانونی حقوق دلوانے میں ناکام رہی ہے،اورمالکان کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے بے روزگارکیا جارہا ہے اب تک ایک اندازے کے مطابق دس ہزار صحافیوں اور میڈیاورکرز بے روزگارہوچکے ہیں اس کے علاوہ تنخواہوں میں غیرقانونی کٹوتی اور تنخواہوں میں کئی کئی ماہ تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے،صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع کے ضلعی نمائندگان کو دیا جانے والا معاوضہ چینل اور اخباری مالکان نے بند کردیا ہے جس سے ان صحافیوں کی مالی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، پیمرانے اگرچہ تنخواہوں کے حوالے سے بل میں اچھی ترامیم پیش کی ہیں، لیکن کیا میڈیا مالکان اس پر عمل پیراہونگے؟ کیا پیمرا اس پر سختی سے عمل درآمد کروائے گا؟یا یہ صرف دکھاوے کے لئے شامل کئے گئے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ ان ترامیم کے ذریعے مخالفین کی آواز کو دبایا جائے گا یا پھر مکمل آزادی اظہار کے خلاف استعمال کیا جائے گا، پیمرا تو ابھی تک الیکڑوانک میڈیا کے لئے قوانین پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے،گیٹ کیپرہونا چاہی ہے، لیکن جیلر نہیں، پابندیاں اور ضابطے ہونے چاہی ہیں، لیکن اعتدال کے ساتھ، جبر کے ساتھ کبھی کوئی تحریک آواز دبائی نہ جاسکی، حکومت،ریاست مسائل کے حل پر توجہ دے، سب ٹھیک ہوجائے گا؟ لیکن سب سے بڑا سوال صحافتی تنظیموں کے کردار کے حوالے سے ہے؟ کیا صحافتی تنظیمیں اس پر موثرکردار ادا کرے گی؟ یاوہ بھی قومی مفاد کے نام پر چپ سادے رہیں گئے سوال صحافت بلکہ آزاد صحافت کے مستقبل کا ہے۔۔۔(بادشاہ خان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں