13؍ فروری کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے ایک سینئر عہدیدار کو واٹس ایپ پر ایک ٹی وی اینکر نے فون کال کی۔ اس اینکر نے پیمرا لاہور کے دفتر میں دھاوا بولتے ہوئے چیخ و پکار کی اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ دفتر کا محاصرا کر لیں اور دفتر کے دروازے بند کر دیے اور کہا کہ کسی کو اندر یا باہر جانے نہ دیا جائے۔ اینکر کی سیکورٹی پر مامور تین پولیس اہلکاروں نے لاہور دفتر پر قبضے میں اس کی مدد کی۔ اینکر کے ساتھ سادہ لباس میں بھی دو افراد موجود تھے جو ٹویوٹا کرولا گاڑی میں آئے تھے جس پر ہرے رنگ کی نمبر پلیٹ تھی۔ اس اینکر نے چیخ و پکار کرتے ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کا دریافت کیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس کا ڈیٹا قبضے میں لے لیا جائے۔ جس وقت لوگوں کو مغوی بنایا جا رہا تھا اس وقت پیمرا لاہور کے ریجنل جنرل مینیجر (آر جی ایم) اپنے دفتر سے باہر آئے اور پریشانی کا ماحول پیدا کرنے والے اس اینکر سے کہا کہ وہ ان کے دفتر میں آ کر بیٹھیں اور بات چیت کرکے شکایت بتائیں۔ اینکر آر جی ایم کے دفتر میں ان کے ساتھ پہنچا اور اپنے ساتھ آئے پولیس والوں سے کہا کہ دروازہ اندر سے بند کر دیں اور ہتھیاروں کے ساتھ چوکس کھڑے رہیں۔ بالآخر آر جی ایم کو ان کے دو مہمانوں کے ہمراہ یرغمال بنا لیا۔ یہیں سے اس اینکر نے اسلام آباد میں پیمرا افسر کو فون لگایا اور اسپیکر فون کھول کر ان سے بات شروع کی۔ اینکر نے سوال کیا، ’’تم اپنی ملازمت برقرار رکھنا چاہتے ہو یا نہیں۔‘‘ جواب آیا، ’’جی میں کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ دوسرا سوال: ’’اگر میں تم سے کہوں کہ اپنے اختیارات مجھے دے دو تو کیا تم ایسا کرو گے؟‘‘ جواب: ’’جی میں کر دوں گا۔‘‘ تیسرا سوال: ’’اگر میں تمہیں فون کال پر ایک گھنٹے کیلئے انتظار کرائوں تو کیا تم کال کاٹ دو گے یا انتظار کرو گے؟‘‘ جواب: ’’جی میں انتظار کروں گا۔‘‘ اس کے بعد اس سینئر عہدیدار نے اینکر سے درخواست کی کہ وہ پیمرا کو معاف کر دیں اور ان کیخلاف کی گئی کارروائی غلطی سے ہوئی تھی۔ سینئر عہدیدار نے وعدہ کیا کہ وہ خود لاہور آ کر اینکر سے معافی مانگیں گے۔ اس کے بعد بات چیت ختم ہوئی اور اس تمام واقعے کے دوران آر جی ایم پیمرا لاہور خاموش تماشائی بنے رہے۔ اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ پیمرا کی شکایت کونسل (کونسل آف کمپلینٹس) نے دو صوبائی وزراء کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے اس اینکر پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اینکر نے اپنے ٹی وی پروگرام میں ان دونوں وزراء پر کرپشن کا الزام عائد کیا تھا لیکن ثابت نہیں کر پایا۔ چیئرمین پیمرا نے جرمانے کی منظوری دی اور جرمانے کی دستاویز اس اینکر تک اُسی دن پہنچی جس دن اس نے کوئی قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے پیمرا لاہور کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ چونکہ معاملہ سینئر پیمرا عہدیدار کی یقین دہانی پر ’’حل ہوگیا‘‘، اینکر نے اس خوشی کا جشن پیمرا لاہور کے دفتر میں ہی منانے کا فیصلہ کیا اور وہ وہاں سہ پہر تین بجے سے شام 6؍ بجے تک موجود رہا۔ اس نے اپنے ساتھ آئے پولیس والوں سے کہا کہ وہ 10؍ پیزا لے کر آئیں جو فوراً پیش کر دیے گئے۔ یہ پیزا وہاں بیٹھے تمام افراد نے کھائے اور اس دوران اینکر نے سب سے پریشانی کیلئے معذرت کا اظہار کیا۔ آر جی ایم اکرام برکت نے اپنی رپورٹ میں چیئرمین پیمرا کو لکھا ہے کہ اس کے بعد اس اینکر نے ’’وہاں یرغمال افراد کو اپنی طاقت اور اثر رسوخ کا بتایا، عدلیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں میں بڑے بڑے لوگوں کے نام لیکر اس اینکر نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی وہ بہت ہی با اثر شخص ہے اور اسے مذکورہ اداروں کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ آر جی ایم کی رپورٹ کو انتہائی خفیہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’’اس اینکر نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اسے سپریم کورٹ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی بھی جگہ کو سیل کر سکتا ہے اور اس کے پاس ایسا کرنے کیلئے گاڑی میں مہریں بھی موجود ہیں۔ حوالے کے طور پر اس نے ایک واقعے کا ذکر کیا جس میں اس نے تین دن قبل ایک اسپتال کو سیل کر دیا تھا۔
(نوٹ: یہ خبر جنگ اور دی نیوزکے رپورٹر عمرچیمہ نے بریک کی ہے۔۔ جس میں اینکر کا نام نہیں لیا گیا اس بارے میں وہ اپنے ٹوئیٹ میں کہتے ہیں کہ اینکر کا نام رپورٹ میں بھی پیمرا نے نہیں لیا بلکہ اس کے ایک افسر اس رپور ٹ کو میل کرنے کے بجائے دستی لاہور سے اسلام آباد پہنچے۔۔ لیکن دوسری جانب جنگ اور جیوکے ایک اور رپورٹراعزاز سید نے اس خبر کو بول کے اینکر اسدکھرل کی تصویر کے ساتھ شیئر کی اور واضح کیا کہ یہ کون سا اینکر ہے۔۔ عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس خبر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔