خصوصی رپورٹ
پیمرا کی جانب سے اتوار کو ٹی وی چینلز سے متعلق اعلامیہ جاری ہونے کے بعد مختلف چینلز پر ہلچل مچ گئی، صحافیوں ، تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے پیمرا کے اعلامیے پر دن بھر تجزیے اور تبصرے کیےاور کہا کہ میڈیا کی آزادی آہستہ آہستہ سلب کی جارہی ہے۔تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کیا جارہا ہے، لگتا ہے پیمرا آئندہ گیسٹ لسٹ بھی خود دیگا کہ ان لوگوں کے علاوہ ٹی وی اسکرین پر کسی کو نہ بلائیں، ہمیں ہر جگہ یہ معاملہ اٹھانا، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے۔ روزنامہ جنگ کے مطابق ایک اینکر پرسن نے کہا کہ پیمرا کی طرف سے ہمارے پاس نوٹیفکیشن آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون کون کس کس شو پر جانے کے قابل ہے، کسے ہم بلائیں اور کسے بلانا مناسب نہیں ، میرا خیال ہے پیمرا آئندہ گیسٹ لسٹ بھی خود دے دیگاکہ ان لوگوں کے علاوہ ٹی وی اسکرین پر کسی کو نہ بلایا جائے، لگتا ایسا ہے کہ آنے والے دنوں کے حوالے سے حکومت یہ اقدامات کر رہی ہے ، جہاں تک صداقت اور غیر جانبدار تجزئیے کی بات ہے تو اس کا پیمانہ کون طے کرے گا کیا اس حوالے سے بھی کوئی لسٹ آئے گی؟
یہ بڑی دلچسپ بات ہے جس میں پیمرا کی جانب سے کہاگیا ہےکہ جو اپنا پروگرام ہوسٹ کرتے ہیں وہ کسی اور چینل پر تو کیا بلکہ اپنے چینل پر بھی بطور تجزیہ کار نہ جائیں، اتنی دلچسپ بات ہے کہ مسلم لیگ (ن )کی آدھے سے زیادہ قیادت جیل کے اندر موجود ہے کچھ لوگوں کی شہریت ختم کر کے کہتے ہیں کہ ٹی وی پر مت بلائیں، کچھ کی شکل پسند نہیں کچھ سے ہماری نہیں بنتی ،ان کو نہیں بلا سکتے۔انہوں نے کہاکہ یہ بیانیہ کنٹرول کرنے کا ایک ایسا بھونڈا طریقہ ہے جو کسی گورنمنٹ میں نہیں دیکھا گیا، نئے پاکستان میں ہم ایسی توقع نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں تحریک انصاف کی ہر بات کو میڈیا پر دکھایا گیا ان کے دھرنے، جلسوں کو کوریج دی گئی، آج مخالفین کے حوالے سے ایسی بات کی جارہی ہے اور باقاعدہ قانون کے تحت ان چیزوں کو لاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایک تجزیہ کارو ریٹائرڈ جنرل نے کہا کہ آپ جوڈسکلیمر پروگرام سے پہلے چلا دیتے ہیں اس میں بڑے واضح طور پر ایک قانونی ٹرم ہوتی ہے چینل کی جو بھی مہمان ہیں وہ ان کے ویوز ہیں نہ اس چینل کی پالیسی ہے نہ ہم اس میں معاون ہیں ، میں اگر سابق فوجی جنرل ہوں تو میں پاکستان آرمی کا نمائندہ ہر گز نہیں ہوں، میں جو بھی بات کر رہا ہوں اپنے تجربے کی بنیاد پر دے رہا ہوں ،پروگرام میں مہمان کو بلانے کے حوالے سےکوئی قانونی پابندی نہیں ہے پھر اس پر اتنی قدغن لگا دینا یہ آزادی رائے کے خلاف ہے۔پیمرا نوٹس کے حوالے سے ایک تجزیہ کار نے کہا کہ یہ کبھی دنیا میں ہوا نہیں کہ پریس کو یہ کہا جائے کہ آپ کو یہ کرنا ہے یہ نہیں کرنا ، تحریک انصاف کے لوگ اس قسم کی شوشہ چھوڑنے کے عادی ہیں ، اس قسم کے شوشے چھوڑ نا اس حکومت کے مسائل کو بڑھائے گا، ہم نے ایک خاص عرصہ کے لئے ان کی مداخلت برداشت کرلی ہے جس کی وجہ سے انہیں جرأت ہوئی ہے اور اس نہج تک یہ بات پہنچ گئی ، یہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
ایک تجزیہ کار نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں زیڈ اے سلہری پاکستان ٹائم کے چیف ایڈیٹر سے برطرف کر دیا الطاف حسین قریشی، مجیب الرحمن شامی کو گرفتار کیا، نوازشریف نے کہا کہ نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کر دیں، مشرف نے کہا نہیں ہوسکتا پھر مقدمے ہوئے جنگ اخبار ایک صفحے پر آگیا ، میر شکیل کے خلاف ملیحہ لودھی کے خلاف مقدمے ہوئے ،اس کے بعد شاہد خاقان عباسی، ایک ایگزیکٹو آرڈر سے پورے چینل بند، پیمرا بائی پاس اس کے بعد آگئے۔عمران خان جن کے 126 دنوں کے دھرنے اشتہارات ختم کر کے دکھائے گئے۔ عمران خان اور ٹرمپ دونوں میڈیا اور سوشل میڈیا کی مرہون منت ہیں اور دونوں آج ان سے تنگ ہیں،پیمرا ایسا نہ کرے، برائے مہربانی ہمیں بولنے دیں ہمارا بولنا ملک کے لئے ہے۔
ایک سینئر صحافی و تجزیہ کار نے پروگرام میں اپنی میڈیا اسٹڈیز اور پبلک ایڈمنسٹریشن کی ماسٹرز کی ڈگریاں دکھاتے ہوئے بتایا کہ میں 22سال سے صحافت کررہا ہوں، میں نے سٹی رپورٹرسے لے کر چینل ہیڈ تک کی خدمات انجام دی ہیں اور اپنا پروگرام بھی کررہا ہوں ، پیمرا نے اپنی ہدایات میں اینکرز کا لفظ استعمال کیا ہے، پتہ نہیں یہ اینکرز کو صحافی سمجھتے ہیں یا نہیں سمجھتے، جس سائنسدان نے بھی انہیں یہ کام کرنے کیلئے کہا شاید اس کی خواہش ہے کہ ایک ججمینٹڈ میڈیا ہونا چاہئے جوا یک ہی طرح سے مارچ کررہا ہو اور ایک طرح کی آوازیں سب جگہ سے آرہی ہوں لیکن ایسا ممکن نہیں، شاید ان لوگوں کو اس بنیادی طریقہ کار کا بھی ادراک نہیں ہے کہ اینکر اور صحافی متعلقہ فیلڈ اور سبجیکٹس کے لوگوں سے بات کر کے معلومات حاصل کرتے اور عوام تک پہنچاتے ہیں۔
پیمرا کے ہدایت نامے میں غیرجانبدار تجزیہ کار کا ذکر کیا گیا، کیا پیمرا کے پاس ایسی کوئی فہرست موجود ہے جس میں بتایا گیا ہو کہ کن تجزیہ کاروں کو آپ بلاسکتے ہیں اور کن تجزیہ کاروں کو نہیں بلاسکتے، ماضی میں تو دفاعی تجزیہ کاروں کی فہرست بنتی رہی ہے کہ یہ لوگ ہمارے سرٹیفائیڈ دفاعی تجزیہ کار ہیں انہیں بلائیں اس کے علاوہ کسی کونہیں بلائیں، ان کو پرچیاں بھی دی جاتی ہیں کہ آپ نے اس طریقے سے اس موضوع پر کہنا ہے جس کو عام الفاظ میں پراپیگنڈا کہا جاتا ہے، میڈیا کی آزادی کو آہستہ آہستہ سلب کیا جارہا ہے، تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کیا جارہا ہے۔ماضی کی طرح اس دورِ حکومت میں بھی جو صحافی یا اینکر پسند نہیں اس کا پروگرام بند اور داخلہ ممنوع کیا جارہا ہے، پوری دنیا میں مقبول لیڈروں کا مسئلہ ہے وہ تنقید پسند نہیں کرتے ہیں، میڈیا پر ایک ایک کر کے قدغنیں لگائی جارہی ہیں، ایسا لگا رہا ہے کہ سپریم کورٹ میں کمیشن بنانے کی درخواست کرنی چاہئے کہ تما م میڈیا مالکان، تمام اداروں کے ڈائریکٹر نیوز، ہیڈ آف نیوز اور ڈائریکٹر پروگرامز کو بلائیں اور کہیں اپنے اپنے فون دیدیں ان کا فارنزک تجزیہ کروائیں گے۔آپ کو کس کے واٹس ایپ پیغامات آتے ہیں کہ یہ چیز چلنی ہے یا نہیں چلنی ، سینیٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی نے پہلے ہی پیمرا کے آفیشلز کو کہہ دیا ہے ، مجھے پورا یقین ہے کہ اب ان افسران کے فون گم ہوجائیں گے جن کی طرف سے یہ قدغنیں لگائی جارہی ہیں، برطانیہ کے اولیول فیل ارب پتی شخص وزیراعظم کے مشیر ہوسکتے ہیں، ایف اے اور ایف ایس سی فیل وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ بن سکتے ہیں کیونکہ وہ ان کے دوست ہیں، 2فیصد کمیشن لینے والے پراپرٹی ڈیلر وفاقی وزیر ہوسکتے ہیں جن کے بی کام میں گریڈز شرمندہ کرنے والے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی اداروں کے حوالے سے بات چیت کے حوالے سے پٹیشن پر جسٹس اطہر من اللہ کا آرڈر بہت اچھا تھا کہ میڈیا کو چیزیں پوائنٹ آؤٹ کرنے کی آزادی ہونی چاہئے، میڈیا سے حکومتوں کو رہنمائی لینی چاہئے اگر کوئی چیز پوائنٹ آؤٹ ہورہی ہے تو آپ اسے ایڈریس کرلیں، سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس وقت انصاف کی تلاش میں ہیں، وزیراعظم کی تردید کے بعد کچھ چینلز نے مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس دکھانے کی کوشش کی تو انہیں فون اور پیغامات آگئے۔حکومت جو حرکات کررہی ہے اس سے نہ صرف نا اہلی بلکہ ان کو اڑتا تیر پکڑنے کی عادت ہوگئی ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیوقوف دوست سے عقلمند دشمن اچھا ہوتا ہے جو ان کے مشیر ہیں وہ دانستہ ایک حملہ کررہے ہیں کہ عمران خان جو ہمیشہ سے میڈیا کی ڈارلنگ رہے ہیں چاہے مقامی ہو یا بین الاقوامی اگر آپ ان کے مشیران دیکھیں تو انہوں نے اصل پی ٹی آئی کو ایک طرف کیا ہوا ہے وزیراعظم کو گمراہ کیا جارہا ہے، ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر سارے ایسے اقدامات کرائے جارہے ہیں اس حکومت کی نا اہلی ہر ایک پر عیاں ہوتی جارہی ہے۔
ماہر قانون نے کہا کہ پیمرا کی اینکر اور صحافی پر اپنے پروگرام یا دوسرے پروگرامز میں رائے دینے پر پابندی آئین کی خلاف ورزی اورآزادیٴ اظہار اور صحافت پر ایک حملہ ہے، پیمرا کے ہدایت نامہ میں پیرا 6کی شق Dکے ساتھ B اور C بھی انتہائی خطرناک شقیں ہیں، اس میں عدلیہ کے ساتھ ریاستی اداروں کی پخ لگائی گئی ہے کہ ان پر جانبدارانہ تجزیہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس میں ایک تنبیہ ہے کہ کسی بھی تجزیہ کو جانبدارانہ، غیر شفاف اور پروپیگنڈا قرار دے کر تجزیہ کار کو پکڑا جاسکتا ہے، یہ بھول گئے ہیں کہ رپورٹنگ اور رائے دینے میں فرق ہوتا ہے، کیا اب صحافی اور تجزیہ کار اپنی رائے دینے کے بھی قابل نہیں رہے ، پیمرا کا ہدایت نامہ کسی طرح بھی آئین کے مطابق نہیں ، یہ فسطائیت سے بھی آگے کی بات ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں، یہ قدغن لگانا جمہوریت کے خلاف ہے کہ صرف سبجیکٹ ایکسپرٹ ہی اس موضوع پر بات کرسکتے ہیں، جمہوریت میں عام آدمی مختلف لوگوں کی رائے پرکھ کر ووٹ دیتا ہے۔جمہوریت کا مطلب ٹیکنو کریٹس کی نہیں عام لوگوں کی حکمرانی ہے، پیمرا نے ہدایات نامہ میں کچھ چیزیں مبہم رکھی ہیں ، صحافی ہوں یا معاشرے کا کوئی اور فرد ہو اس کی بات کرنے کی آزادی ختم کی جارہی ہے، اب یہ ممکن نہیں کہ ہم احتجاج اور اس سے آگے بڑھ کر عمل نہ کریں، ہر جگہ اس معاملے کو اٹھانا چاہئے اور اگر شنوائی نہیں ملتی اس کو واپس نہیں لیا جاتا تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے، اسلام آباد ہائی کورٹ موضوع عدالت ہے کیونکہ یہ معاملہ وہاں پر اٹھ چکا ہے اور اس بات کو آگے لے کرجانا عدالتی طور پر شاید سود مند ہو۔
ایک اور سینئر صحافی و تجزیہ کار نے کہا کہ میرے پاس میڈیا کی ڈگری نہیں، آئی بی اے کا پڑھا ہوا ہوں، آپ چاہیں تو مارکیٹنگ کے بار ے میں کچھ بتاسکتا ہوں، نواز شریف کی بیماری اور حافظ حمد اللہ کے معاملہ کو مس ہینڈل کیا گیا، حافظ حمد اللہ سینیٹر رہے ہیں اچانک انہیں احساس ہوا کہ وہ پاکستانی ہی نہیں ، ایسا لگ رہا ہے جس کی جہاں جو مرضی چل رہی ہے وہ وہی کام کررہا ہے، حکومت کی دونمبر قسم کی فاشزم ہضم نہیں ہورہی ، ایک کے بعد دوسری بیوقوفی سامنے آرہی ہے،جب اوپر سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کمزور ہو تو ہر بندہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو بنا لے گاتو کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔
ایک اور سینئر صحافی و تجزیہ کار نے کہا کہ جو اینکرز اور سینئر صحافی پیمرا کے ہدایت نامہ کو آزادیٴ اظہار پر قدغن سمجھتے ہیں وہ اپنے مشترکہ دستخطوں سے بیان جاری کریں، وزیراعظم سے پیمرا کے اس نوٹیفکیشن کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا جائے، پیمرا کے ہدایت نامے سے لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز پر دفعہ 144لگادی گئی ، اگر وزیراعظم، مشیر اطلاعات اور چیئرمین پیمرا کہتا ہے کہ کسی کوریج پر پابندی نہیں لگائی تو وزیراعظم سے پوچھا جائے کہ میڈیا پر یہ پابندیاں کون لگارہا ہے، پچھلے کئی سال سے میڈیا کی زباں بندی کی کوششیں کی جارہی ہیں، کبھی کسی قانون تو کبھی کسی بل کے تحت آزادیٴ اظہار پر پابندی لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پیمرا چاہتا ہے کہ ٹاک شوز میں صرف فردوس عاشق اعوان، فیصل جاوید، یوسف مرزا بیگ اور پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم بیٹھے، پیمرا کے آرڈیننس میں کہیں نہیں ہے کہ کوئی اینکر دوسرے چینل کے پروگرام میں رائے نہیں دے سکتا ،ہم نے حکومت کو ہتک عزت کا قانون مضبوط کرنے کیلئے کہا مگر وہ تیار نہیں، سیاسی جماعتوں کو کہا تھا کہ پیمرا لاء ، پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کی بھیانک شکل ہوگی۔یہ اس قانون کو ہر چینل ،صحافی اور تنقید کرنے والے کے خلاف استعمال کریں گے، پیمرا کے قانون کو تبدیل بلکہ ختم کرنے کی ضرورت ہے، ہم نے انہیں میڈیا کمپلینٹس کمیشن بنانے کا پروپوزل دیا اور پورا ڈرافٹ ان کے سامنے رکھ دیا تھا۔