پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین کو دو ماہ سے بھی کم مدت میں اپنے ہی ایک سینئر افسر کے خلاف خواتین کو ہراساں کرنے کی دوسری شکایت موصول ہوئی ہے۔روزنامہ جنگ کے مطابق پہلی شکایت اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی ایک خاتون ملازمہ نے گزشتہ سال نومبر کے وسط میں درج کرائی تھی جس نے دعوی ٰکیا تھا کہ پیمرا کے ایک سینئر افسرنے انہیں ہراساں کیا تھا اور اس کے ساتھ بدتمیزی کی تھی تاہم اس نے اپنے افسران کی ہدایت پر اسی دن شکایت واپس لے لی۔اس کا دعویٰ ہے کہ پیمرا کی طرف سے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کو دیئے جانے والے تمام کاروبار کو واپس لینے کی انہیں بالواسطہ دھمکیاں موصول ہوئی ہیں، کاروبارسے ہاتھ دھونے کے خوف نے اسے سینئر افسر کے خلاف ہراساں کرنے کی شکایت گھنٹوں میں واپس لینے پر مجبور کردیا۔دوسری شکایت ریگولیٹری باڈی کی ایک خاتون اسٹافر نے 10 جنوری 2020 کو درج کرائی پیمرا کی اسٹافر (مکمل نام اس کی رازداری کیلئے استعمال نہیں کیا جارہا ہے) نے اسی سینئر افسرکے خلاف چیئرمین آفس میں ہراساں کرنے کی شکایت درج کرائی تھی جو نامناسب اور غیر شائستہ ریمارکس کے بارے میں تھی۔خاتون نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ سینئر افسرنے اس کو جنسی طور پر راغب کرنے کی کوشش کی اور اس سے کہا کہ وہ اس سے جنسی تعلق قائم کرے بصورت دیگر وہ اسے سبق سکھائے گا۔خاتون کے مطابق ، واقعے کے وقت دو دیگر اعلی ٰعہدیدار (جن میں سے ایک نے پیمرا چھوڑ دیا ہے) بھی موجود تھے، سینئر افسر نے اسے اپنے ساتھ مری جانے کے لئے کہا۔
دوسری طرف اس سینئر افسرکا دعوی ٰ ہے کہ خاتون سٹافر جھوٹ بول رہی ہے اور اس کے خلاف یہ ساری مہم پیمرا میں ان کے مخالفین چلا رہے ہیں ، ان کی ترقی کی سمری کے بعد ریگولیٹری باڈی کے اندر سے کچھ عہدیداروں نے ان کے خلاف مہم شروع کردی ہے،جب میرے حریفوں کو میرے خلاف کوئی ٹھوس چیز نہ ملی تو انہوں نے خواتین کو میرے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔اسٹیٹ لائف انشورنس کے حوالے سے بھی خاتون نے سراسر جھوٹ بولا ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو محکمے میں پہلے ہی اتنی ساری خواتین کام کر رہی ہیں کبھی کسی نے ایسی کوئی شکایت کی اور نہ ہی کوئی واقعہ پیش آیا۔ فیڈرل محتسب کشمالہ طارق کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین جنہیں کام کی جگہوں پر ہراسانی کا سامنا ہے وہ آگے آنے اور ہراساں کرنے والوں کے خلاف شکایت درج کرنے سے گریز کرتی ہیں، اب جب قانون موجود ہے تو ایسی خواتین کو آگے آکر آواز اٹھانے کی حو صلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ فیڈرل امبیڈ سن سیکریٹریٹ آن پروٹیکشن اینڈ ہراسمنٹ (FOSPA) دو ماہ میں مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے تاہم بجٹ کی رکاوٹوں کی وجہ سے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ عوام کو اس مسئلے پر مناسب طور پر تعلیم نہیں دے سکتا۔
خاتون نے’’ دی نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ چیئرمین سیکرٹریٹ میں ڈیلی ویج کے طور پر کام کرتی ہیں، نومبر کے وسط میں سینئر افسر نے انہیں دفتر میں چار بجے بلایا، پیمرا کے دو دیگر عہدیدار موجود تھے ۔ایک عہدیدار نے کہا سینئر افسر آپ کو بہت پسند کرتے ہیں اور مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں اس کے بعد سینئر افسرنے جنسی ریمارکس دیئے اور کہا کہ وہ اسے نتھیاگلی لے جانا چاہتے ہیں، انہوں نے کچھ دوسری باتیں بھی کیں جن کا میں یہاں ذکر نہیں کرسکتی۔انکار پر مجھے دھمکی دی کہ وہ اس کیلئےملازمت جاری رکھنا مشکل بنا دے گا۔ اس واقعے کے بعد اس نے ہر روز دوسرے عملے کے سامنے مجھے ڈانٹنا شروع کیا اور طنز آمیز ریمارکس دینے لگا۔میرا خیال تھا کہ یہ رویہ عارضی ہے لیکن اس واقعے کے بعد وہ سب کے سامنے میری مسلسل توہین کرتا رہا۔10جنوری کو جب وہ اپنے دفتر گئی تو سینئر افسرنے کہا ہم آپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں،آپ نے مجھے راضی نہیں کیا۔ ان ریمارکس کے بعد اس نے اس افسرکے خلاف شکایت درج کرانے کا فیصلہ کیا ۔میں نے سب سے پہلےایگزیکٹو ممبر (ای ایم) کو آگاہ کیا تھا، انہوں نے مجھے معاملہ نظرانداز کرنے کو کہا۔ اگر بطور ملازم میری کارکردگی غیر تسلی بخش تھی تو محکمہ میمو یا وارننگ جاری کرسکتا ہے۔چیئرمین پیمرا کو آزادانہ تحقیقات کرنی چاہئیں اور سینئر افسر کا اثر و رسوخ نہیں ہونا چاہئے تب مجھے یقین ہے کہ ہر ملازم اس کے خلاف گواہی دے گا ۔’’دی نیوز‘‘ نے ایک اور خاتون سے بھی رابطہ کیا جنہوں نے سینئر افسر کے خلاف پہلی شکایت درج کروائی۔
انہوں نے بتایا کہ سینئر افسر نے اسے جنسی طور پر ہراساں نہیں کیا تاہم توہین آمیز ریمارکس دیتا رہا۔میں نے اپنی شکایت اس لیے واپس لے لی کیونکہ میرے افسران نے مجھ سے ایسا کرنے کو کہا بصورت دیگر ہم پیمرا سے ملنے والے کاروبار سے ہاتھ دھو سکتے ہیں ۔ دی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے سینئر افسرنے کہا کہ خاتون جھوٹ بول رہی ہے، اس نے کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی، میرے بھی بچے ہیں پھر میں ایسی حرکت کیسے کرسکتا ہوں، یہ ساری مہم میرے مخالفین چلا رہے ہیں جو مجھ سے حسد کرتے ہیں کیونکہ میرا نام ترقی کے لئے آگے بھیجا گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا میری ملازمت مجھ سے سختی کا تقاضا کرتی ہے ہوسکتا ہے میں نے کچھ لوگوں کے ساتھ سخت برتاؤ کیا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے کسی کو ہراساں کیا ہے۔ چھیالیس دیگر خواتین بھی موجود ہیں انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ میں جانتا ہوں یہ سب کون کر رہا ہے،ریگولیٹری باڈی میں 12 افراد ہیں جن کا مجھ سے مسئلہ ہے جب وہ میرے خلاف کوئی ٹھوس چیز تلاش کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے میرے خلاف فی میل کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا۔