تحریر: جاوید چودھری۔۔
شاہ محمد کی عمر صرف گیارہ سال تھی‘ وہ کراچی کے گلشن معمار کے علاقے افغان کیمپ میں رہتا تھا‘ خاندان غریب اور ان پڑھ تھا لیکن اس کے باوجود وہ بچے کو تعلیم دلا رہے تھے‘ شاہ محمد دوسری کلاس میں پڑھتا تھا‘ گلی میں نظام الدین نمکو کی دکان چلاتا تھا‘ بچہ اکثر اس کے پاس ٹافیاں خریدنے جاتا تھا‘ آج سے دو ہفتے قبل شاہ محمد نظام الدین کی دکان پر گیا تو دکان دار نے بچے کے ساتھ سو روپے کی شرط لگا لی‘ شرط کیا تھی؟ بچے نے سرکے کی بوتل پینی تھی اور اسے سو روپے مل جانے تھے۔بچے نے سرکے کی بوتل اٹھائی اور غٹا غٹ پی گیا‘ دکان دار شرط ہار گیا‘ اس نے قہقہہ لگایا اور شاہ محمد کو سو روپے دے دیے‘ بچے نے رقم لی اور جیب میں ڈال لی لیکن وہ بمشکل گھر پہنچ سکا‘گھر کی دہلیز پر اسے خون کی الٹیاں شروع ہو گئیں اور وہ گر کر تڑپنے لگا‘ اسے اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گیا‘ یہ خبر ٹیلی ویژن چینلز تک پہنچی‘ شوروغوغا ہوا‘ پولیس ایکٹو ہوئی اور دکان دار نظام الدین کو گرفتار کر لیا گیا‘ بچے کے والدین غریب لوگ ہیں لہٰذا پھر اس کیس کا کیا بنے گا؟ دکان دار دکان بیچ کر پولیس یا والدین کو رقم دے دے گا اور سال چھ مہینے میں باہر آ جائے گا یا پھر والدین غربت کی وجہ سے پیروی نہیں کر سکیںگے اور یوں مجرم سال دو سال میں باہر آ جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے مجرم نظام الدین کو واقعی عمر قید کی سزا ہو جائے لیکن کیا اس سزا یا معافی سے جہالت کا یہ سلسلہ رک جائے گا؟ جی نہیں‘ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور بچے شرطوں کی نذر ہوتے رہیں گے۔
یہ ملک میں اس نوعیت کا پہلا کیس نہیں ہے‘ ہمارے ہر شہر میں روزانہ اس قسم کی شرطیں لگتی ہیں اور سیکڑوں معصوم یا جاہل لوگ ان شرطوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ نہ جانے کتنے برسوں سے چل رہا ہے‘ میں اپنی زندگی میں ایسے درجنوں کیسز کا عینی شاہد ہوں‘یہ جہالت اس دور میں بھی ہوتی تھی‘ گجرات شہر میں میری طالب علمی کے زمانے میں دو لڑکوں کے درمیان روح افزاء کی پوری بوتل پینے کی شرط لگی‘ رقم غالباً 50 روپے تھی‘ ایک نوجوان پوری بوتل چڑھا گیا‘ اس نے 50 روپے جیت لیے لیکن پھر وہ پوری زندگی کے لیے شوگر کا مریض بن گیا‘ اسی طرح ہمارے شہر میں ایک کلو برفی کھانے کی شرط لگی‘ دو لڑکے آمنے سامنے بیٹھ گئے اور برفی کھانا شروع کر دی۔آدھا بازار یہ نظارہ کر رہا تھا‘ ایسی شرط میں عموماً کوئی نہ کوئی بغلول جیت جاتا ہے‘ ایک لڑکا جیت گیا لیکن دو گھنٹے بعد ہارنے اور جیتنے والے دونوں اسپتال میں تھے‘ اس کے بعد ان کا کیا بنا میں نہیں جانتا‘ مجھے کالج کے دور میں ایک دوست نے درمیانی عمر کے ایک شخص سے ملایا‘ اس نے ہاتھ میں بے شمار میڈیکل رپورٹس اٹھا رکھی تھیں اور کسی بڑے اور شافی ڈاکٹر کی تلاش میں گلی گلی پھر رہا تھا‘ اس کی یہ حالت بیک وقت 39 کپ چائے پینے سے ہوئی تھی‘ وہ بھی ظاہر ہے شرط کا نتیجہ تھا‘ دو دوستوں میں 50 کپ چائے کی شرط لگی تھی‘ وہ بمشکل 39 کپوں تک پہنچا اور اس کے بعد خون کی الٹیاں شروع کر دیں اور اس کے بعد ڈاکٹر تھے ‘وہ مجاہد تھا اور زندگی کا عذاب تھا۔
اسی طرح کالج میں ہمارا ایک کلاس فیلو تھا‘ وہ انتہائی کم زور تھا‘ اس کے ہاتھ کی وریدیں تک دکھائی دیتی تھیں‘ اس کی خوراک انتہائی کم تھی‘ وہ ایک وقت میں دو تین لقموں سے زیادہ نہیں کھا سکتا تھا‘ اس نے پوری کلاس کو اپنی کہانی سنائی‘ اس کا کہنا تھا ہم دس لڑکے تھے‘ مجھے ان لڑکوں نے دس روپے میں یوریا کھاد کا ’’پھکا‘‘ مارنے کی ترغیب دی‘ میں نے یہ چیلنج قبول کر لیا‘ میں نے ہتھیلی پر یوریا کھاد رکھی اور منہ میں پھینک دی‘ اللہ تعالیٰ کو میری زندگی عزیز تھی‘ ڈاکٹر کا کلینک قریب تھا‘ مجھے اٹھا کر وہاں لے جایا گیا‘ میں بچ گیا مگر اس کے بعد میری ذائقے کی حس ختم ہو گئی‘ مجھے اب کھٹا‘ میٹھا اور نمکین ذائقہ محسوس نہیں ہوتا‘ میں کھا پی بھی نہیں سکتا اگر کھا لوں تو الٹیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
ہم لوگ یونیورسٹی میں تھے تو ہم شرط لگا کر ہاسٹل کی چھت کی دیوار پر آنکھیں بند کر کے چلتے تھے‘ مجھے آج بھی وہ شرارت یاد آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہمارا ہاسٹل دو منزلہ تھا‘ نیچے سڑک تھی‘ ہم میں سے جو بھی نیچے گر جاتا اس کا بچنا محال تھا مگر ہم یہ غلطی مہینوں کرتے رہے اور کسی نے ہمیں سمجھانے کی کوشش تک نہیں کی‘ مجھے اسی زمانے میں کسی کلاس فیلو نے ایک لڑکے کی بات سنائی تھی‘ اس نے شرط لگا کر نہر کے پل کی ریلنگ پر چلنا شروع کر دیا تھا‘ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا‘ نہر میں گرا اور اس کے بعد اس کی لاش تین شہر بعد ملی۔ہم آئے روز ریل کی پٹڑی پر چلنے اور ٹرین کے نیچے آنے والے نوجوانوں کی خبریں سنتے رہتے ہیں‘ موٹر سائیکل ریس اور ون ویلنگ کی خبریں بھی اکثر آتی رہتی ہیں اور ان میں لڑکے روزانہ جان کی بازی ہارتے رہتے ہیں‘ اسلام آباد اس معاملے میں بدنصیب شہر ہے‘ اس میں رات کے وقت نوجوان سڑکوں پر گاڑیاں دوڑاتے ہیں اور اکثر کوئی نہ کوئی اس ریس کا نشانہ بن جاتا ہے‘ میں نے پچھلے دنوں خبر پڑھی ایک نوجوان بھری پستول کے ساتھ ٹک ٹاک وڈیو بنا رہا تھا‘ ٹک ٹاک مکمل ہونے سے پہلے گولی چل گئی اور وہ جان سے گزر گیا‘ اسی طرح بھارت میں چند ماہ پہلے ایک لڑکا انتہائی قریب سے ٹرین کے ساتھ ٹک ٹاک بنارہا تھا‘ وہ ٹرین کی زد میں آ گیا اور اس کے چیتھڑے اڑ گئے۔
مجھے چند برس قبل یورپ کے چند لڑکوں کی وڈیو دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا‘ ان لڑکوں میں سر کے بل کھڑے ہو کر بیئر (شراب) پینے کا مقابلہ ہو رہا تھا‘ ایک لڑکے نے زمین پر سر ٹکا کر بیئر کا سپ لیا‘ شراب حلق میں جانے کے بجائے سانس کی نالی یا دماغ میں چلی گئی اور وہ چند سیکنڈ میں گر کر فوت ہو گیا‘ اسی طرح یورپ ہی کی کسی وڈیو میں کسی ہاسٹل میں چند نوجوان برتھ ڈے منا رہے تھے‘ نوجوان لڑکے کو سر کے بل کھڑا کر کے کیک کھلانے کی کوشش ہو رہی تھی‘ لڑکا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا‘ وہ کھلی کھڑکی کے قریب تھا‘ وہ گرا اور کھڑکی سے سیدھا تین منزل نیچے چلا گیا۔نیچے سڑک تھی اور اس کے اوپر سے گاڑی گزر گئی‘ میرا بیٹا او لیول میں کالج کے ساتھ ٹور پر یوکے گیا تھا‘ ان کے ساتھ ایک بچہ تھا جسے دمہ تھا اور وہ ان ہیلر استعمال کرتا تھا‘ بچے لندن میں کسی کالج کے ہاسٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے‘ عمارت میں سوئمنگ پول تھا‘بچے اس میں نہا رہے تھے‘ وہ بچہ کنارے پر کھڑا ہو کر دیکھ رہا تھا‘ کسی بچے نے اسے پول میں دھکا دے دیا‘ اسے تیرنا نہیں آتا تھا‘ اوپر سے اسے دمہ بھی تھا‘ بچہ پانی میں گرا اور پھر باہر نہیں آ سکا‘ بچوں کاگروپ واپس آ گیا مگر اس بچے کی لاش واپس لانے کے لیے والدین کو انگلینڈ جانا پڑا۔
یہ چند واقعات ہیں‘ اس ملک میں ایسے واقعات روزانہ ہوتے ہیں‘ ہر روز کوئی نہ کوئی بچہ یا نوجوان کسی نہ کسی شرارت یا شرط کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور یہ مسلسل ہو رہا ہے‘ اب سوال یہ ہے اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل آگاہی کے سوا کچھ نہیں‘ حکومت کوپہلے مرحلے میں ابتدائی جماعتوں میں ایک تعلیمی باب کا اضافہ کرنا چاہیے‘ اس باب میں بچوں کو یہ بتایا جائے آپ کی زندگی کو کیا خطرے پیش آ سکتے ہیں اور آپ نے کسی بھی قیمت پر یہ غلطیاں نہیں کرنی‘ انھیں اجنبیوں سے ملاقات سے لے کر ’’بیڈ ٹچ‘‘ اور شرطوں سے لے کر خطرناک شرارتوں تک ہر حرکت سے مثالوں کے ذریعے سمجھایا جائے‘ اساتذہ کو بھی ٹریننگ دی جائے اور یہ بچوں کو ان حرکتوں کے نتائج کے بارے میں پہلی اور دوسری کلاس میں اچھی طرح سمجھا دیں‘ دوسرا ہمارے ملک میں والدین کی ٹریننگ کا کوئی بندوبست نہیں‘ ہمیں یہ بھی شروع کرنی چاہیے۔
ہم حاملہ خواتین کی ٹریننگ کو لازمی قرار دے دیں‘ ہم اسکول کی زنانہ اساتذہ کو ٹریننگ دیں اور یہ ٹیچرز تمام دیہات‘ قصبوں اور شہروں کی حاملہ خواتین کو ڈیلیوری سے پہلے بچوں کو سنبھالنے کی ٹریننگ دیں‘حکومت اس کام کے لیے اسکولوں کی عمارتیں استعمال کر سکتی ہے‘ ہفتے اور اتوار اور اسکول کے اوقات کے بعد عمارتیں خالی ہوتی ہیں۔
حکومت فی میل ٹیچرز کو اضافی تنخواہ دے اور یہ متوقع ماؤں کو بچوں کی پرورش کی ٹریننگ دے دیں‘ اس سے بچوں کی حفاظت بھی ہو جائے گی اور اچھی پرورش بھی اور آخری مشورہ پیمرا کو خصوصی مٹیریل تیار کرا کرشرطوں کے خلاف ٹیلی ویژن چینلز پر ’’پبلک سروس میسجز‘‘ ریلیز کرانے چاہییں‘ اس سے بھی ہزاروں بچوں اور نوجوانوں کی زندگیاں بچ سکتی ہیں‘ہمیں اس کے لیے آئی ایم ایف سے اجازت لینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں‘ہم نے اگر یہ سلسلہ نہ روکا تو یہ شرطیں روزانہ کسی نہ کسی شاہ محمد کی جان لیتی رہیں گی اور والدین کمروں میں چھپ کر روتے رہیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔