جوائنٹ ایکشن کمیٹی کراچی پریس کلب کی جانب سے ”آزادی صحافت کے عالمی دن” کے موقع پر کراچی پریس کلب کے باہر اسرائیلی جارحیت کا شکار 100 سے زائد شہید میڈیا ورکرز کو خراج عقیدت پیش کرنے، خضدار پریس کلب کے صدر صدیق مینگل کی بم دھماکے میں شہادت کے خلاف اور آزادی صحافت کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔ مظاہرے سے ایم کیو ایم کے ایم این اے احمد سلیم صدیقی، کراچی پریس کلب کے صدر سعید سربازی، سیکریٹری شعیب احمد ،پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل اے ایچ خانزادہ ، کے یو جے دستور کے صدر خلیل ناصر ، سیکریٹری نعمت خان ، کے یو جے کے صدر اعجاز احمد ، صدر کے یو جے طاہر حسن خان، سابق صدر کراچی پریس کلب امتیاز خان فاران ، سابق صدر کے یو جے حسن عباس ، پیپ کے صدر محمد جمیل ،کے یو جے کی ممبر گورننگ باڈی کشمالہ نے خطاب کیا۔اس موقع پر مظاہرین نے پلے کارڈ اور بینرزاٹھارکھے تھے جن پر آزادی صحافت کے حوالے سے نعرے درج تھے ،جبکہ فلسطین میں شہید ہونے والے میڈیا ورکرز کو خراج عقیدت پیش کیاگیا۔مظاہرے کے شرکاء مسلسل اسرائیلی جارحیت اورآزادی صحافت کے حوالے سے نعرے بازی کی گئی ۔مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے صدرسعیدسربازی،سیکرٹری شعیب احمدو دیگر مقررین نےکہاکہ آج کا یوم آزادی صحافت فلسطینی صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن ہے، فلسطینی صحافیوں کے لیے اس طرح کی آوازیں نہیں اٹھیں،جس طرح اٹھنی چاہئیے تھیں۔ ہم فلسطین میں صحافیوں پر تشدد اور قتل کی مذمت کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ غزہ میں ایک دہشت گرداسرائیل بمباری کررہا ہے لیکن کوئی اس پر بات کرنے والا نہیں۔ہم فلسطین پرظلم و ستم کا ذمہ داردوسرے عالمی لیڈروں کو نہیں بلکہ اپنے ہی مسلم لیڈروں کو ٹھہراتے ہیں جنہوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کے ادارے نے غزہ کے شہید صحافیوں کو اعزازات سے نوازا ہے ۔ان صحافیوں نے نہ صرف اپنے خاندانوں کی قربانی دی بلکہ خود بھی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے شہید ہوئے۔انہوں نے کہاکہ اسرائیلی جارحیت سے کئی صحافی شہید ہو چکے ہیں۔ ہم ان صحافیوں کی ہمت کودیکھتے ہیں تو ہم میں بھی ہمت پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم یورپی میڈیا کی نام نہاد آزادی پر لعنت بھیجتے ہیں۔انہیں ایشیا کے صحافی نظر نہیں آتے، انہیں فلسطین کے صحافی نظر نہیں آتے، آج آزادی صحافت کے دن ٹارگٹ کرکےخضدار پریس کلب کے صدر کو شہید کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم اپنا حق لینا جانتے ہیں، ہم پیمرا کے کالے قوانین کو نہیں مانتے، صحافی خبریں چلاتے ہیں کہ ادارے انہیں بلا کر کہتے ہیں کہ ہمارے اداروں میں احتساب کا نظام ہے۔ آپ سیاستدانوں اور صحافیوں کو جیلوں اور عدالتوں میں ڈالتے ہیں لیکن جب آپ کی بات آتی ہے تو آپ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس احتساب کا نظام ہے۔ انہوں نے کہاکہ سینئر صحافی شہید جان محمد کے قاتلوں کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا جو کہ حکومت کے لیے باعث شرم ہے۔ ان کی شہادت کے بعد اتنے احتجاج ہوئے لیکن ابھی تک قاتل گرفتار نہیں ہو سکے ہیں۔ کہتے ہیں کچے کے علاقے میں پانی ہے، یہ کیسا کچے کا علاقہ ہے جس میں ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں لیکن صوبائی اور وفاقی حکومت کچھ نہیں کر رہی۔مقررین نے کہاکہ صحافیوں کو نوکریوں سے نکال کر اور بے روزگار کر کے ظلم کیا جا رہا ہے، صحافی اپنا کام کر رہے ہیں نہ حکومت کے خلاف ہیں، میڈیا اداروں میں ورکرز کی تنخواہیں تعطل کا شکار ہیں، بول اور دنیا اخبار سے درجنوں صحافیوں کو بر طرف کردیا گیا لیکن حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، مالکان حکومت سے اپنے اشتہارات کی رقمیں وصول کررہے ہیں لیکن ورکرز جو تنخواہیں دینے میں حیلے بہانے بنا رہے ہیں، مقررین نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میڈیا اداروں سے ورکرز کی برطرفیوں کا نوٹس لیں اور ریگولیٹری اداروں کو فعال کریں جو میڈیا ورکرز کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرسکیں، مقررین نے میڈیا پر طویل عرصے سے عائد غیر اعلانیہ سنسر شپ ختم کرنے، مختلف اداروں کے ذریعے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور جھوٹے مقدمات قائم کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس سلسلے کو فی الفور ختم کرنے کا مطالبہ کیا، صحافی رہنماؤں نے جان محمد مہر اور صدیق مینگل کے قتل میں ملوث عناصر کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔