سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم کا کہنا ہے کہ ۔۔میڈیا میں مزید ریگولیشن کی نہیں بلکہ ان میں بہتری کی گنجائش ہے، نئی میڈیا ریگو لیٹر ی اتھارٹی کا قیام اتنا آسان نہیں ہے، پیمرا کے چھ سات سو ملازمین پریشان ہیں کہ اب ان کا کیا ہوگا، ایسی بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، بنیادی مسئلہ کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد کا ہے اس سے متعلق قانون کو بہتر کرنا ہوگا،اس سلسلے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں نے بڑا کام کیا ہے ،کیبل آپریٹر پر بہت دبائو ہوتا ہے۔ میڈیا جب حکمرانوں، سیاستدانوں، ججوں یا جنرلوں پر تنقید کرتا ہے یا اسٹوریز لاتا ہے تو اس پر شکایت پیدا ہوتی ہے، ناظرین کے خیال میں پاکستان کا میڈیا بعض اوقات ریڈ لائنز عبور کرجاتا ہے جبکہ جعلی خبروں کا بھی بڑا ایشو ہے، پاکستان میں جب بھی کوئی قانون بنایا یا توڑا جاتا ہے تو میڈیا کو اپنی آزادی پر حملے کا خطرہ محسوس ہوتا ہے ، یہ خطرہ بلاوجہ نہیں ہے اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں بات چیت کرتے ہوئے ابصار عالم کا کہنا تھا کہ ۔۔ بریکنگ نیوز بنانے کیلئے میڈیا ریگولیشن کا نئے ادارہ بنانے کا اچانک اعلان مناسب نہیں ہے، کسی قانون میں تبدیلی کیلئے پارلیمنٹ کا طریقہ کار موجود ہے، پرانا گھر گرا کر نیا گھر بنادینا کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا ہے، میڈیا ریگولیشن کیلئے موجودہ قانون کو ختم کرنے کے بجائے بہتری لانی چاہئے، بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کوڈ آف کنڈکٹ پر عملدرآمد کیسے ہو ، اختلاف ہمیشہ اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی نے میڈیا پر جو بات کہی وہ کوڈ آف کنڈکٹ کیخلاف ورزی ہے یا نہیں ، قانون میں بہتری اس جگہ لانی ہوگی جہاں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہورہی ہو،پیمرا نے اس نظام کو بہتر بنانے کیلئے دو ڈھائی سال پہلے برطانیہ کے میڈیا ریگولیشن ادارے آف کام کے ماڈل کو اپنانے کی کوشش کی تھی، آف کام برطانیہ میں ٹی وی چینلز، اخبارات اور آن لائن مواد کو بھی دیکھتا ہے۔ ابصار عالم نے کہا کہ ٹی وی چینلز نہ بند ہونے چاہئیں اور نہ ہی کوڈآف کنڈکٹ کی اتنی خلاف ورزی ہو کہ لوگ تنگ آجائیں، ہم نے اس کیلئے قوانین میں تبدیلی لانے کی تجویز دی تھی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس پر بہت کام بھی کیا ہے، جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ ہمارے پَر کہاں جلتے ہیں؟ تو پَر وہی جلتے ہیں کہ اگر آپ نے ایک سویلین ادارے کو بننے دینا ہے تو وہ بن سکتا ہے، کیبل آپریٹرز پر بہت دباؤ ہوتا ہے اگر وہ دباؤ نہ ہو تو پیمرا بہت اچھی ریگولیشن کرسکتا ہے اور ماضی میں کی بھی ہے۔ ابصار عالم کا کہنا تھا کہ میڈیا کی ریگولیشن سے سب سے زیادہ دلچسپی ناظرین کو ہوتی ہے اور وہی یہاں سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں،ہم جو کچھ کرتے ہیں ناظرین کیلئے کرتے ہیں وہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے، اگر کوئی چیز تبدیل کرتے ہوئے ان سے ہی مشاورت نہ کی جائے، اگر نیوز چینل ختم کر کے انٹرٹینمنٹ چینل لانے کی بات کی جاتی ہے اور ناظرین کہتے ہیں ہمیں انٹرٹینمنٹ نہیں نیوز چینل دیکھنا ہے تو پھر کیا کریں گے، ایک دو انٹرٹینمنٹ چینلز کی ریٹنگ نیوز چینل سے بہتر آتی ہے، پرائم ٹائم میں نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز میں سخت مقابلہ ہے، انٹرٹینمنٹ کا ایک چینل یا ایک سلاٹ کبھی نیوز کو بائی پاس کرجاتا ہے، انٹرٹینمنٹ کے مقابلہ میں نیوز چینلز زیادہ موثر سمجھے جاتے ہیں۔۔
پیمرا کے سینکڑوں ملازمین مستقبل سے پریشان۔۔
Facebook Comments