خصوصی رپورٹ۔۔
پاکستان نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے والے قوانین میں نئی ترامیم متعارف کرائی ہیں۔ اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے، جس کے تحت شخص کی تعریف کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔نئی ترامیم کے مطابق اب ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے پر قید تین سے بڑھا کر پانچ سال تک کر دی گئی ہے۔اس صدارتی آرڈیننس کے مطابق شکایت درج کرانے والا متاثرہ فریق، اس کا نمائندہ یا گارڈین ہو گا، جرم کو قابل دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہو گا۔ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ چھ ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔ آرڈیننس کے مطابق ہائی کورٹ کو اگر لگے کہ کیس جلد نمٹانے میں رکاوٹیں ہیں تو رکاوٹیں دور کرنے کا کہے گی۔آرڈیننس کے مطابق وفاقی و صوبائی حکومتیں اور افسران کو رکاوٹیں دور کرنے کا کہا جائے گا۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسران کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔
اس آرڈیننس میں ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ میں شامل وزیر قانون فروغ نسیم نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے والے کی ضمانت نہیں ہو گی اور کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔ان کے مطابق جعلی خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون بڑا ضرروی ہے، اس لیے اب فیک نیوز پھیلانے والوں کو تین سال کی جگہ پانچ سال سزا ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ جرم قابل ضمانت نہیں ہو گا اور اس میں بغیر وارنٹ گرفتاری ممکن ہو گی۔وزیر قانون نے مزید کہا کہ ’پیکا قانون سب کے لیے ہو گا اور جانی پہچانی شخصیات سے متعلق جھوٹی خبروں کے خلاف شکایت کنندہ کوئی عام شہری بھی ہوسکتا ہے۔فروغ نسیم نے ان ترامیم کی ضرورت سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’(سابق) چیف جسٹس گلزار کے خلاف خراب زبان استعمال کی گئی، خاتون اول سے متعلق طلاق کی جھوٹی خبریں چلائی گئیں۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو قانون سازی کے لیے آرڈیننس پر بہت زیادہ انحصار کرنے پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں اگست 2018 سے اب تک 70 سے زیادہ آرڈیننسز جاری کیے جا چکے ہیں۔
پیکا ترامیم پر حزب اختلاف کی جماعتوں کا مؤقف
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے حکومت کی جانب سے سرکاری اعلان کے بغیر قومی اسمبلی کا طے شدہ اجلاس منسوخ کرنے اور انتخابی مہم اور سوشل میڈیا کے حوالے سے دو آرڈیننسز جاری کرنے کی منصوبہ بندی پر تنقید کی ہے۔شیری رحمان نے ٹویٹ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے قوانین کے دائرہ کار کو انتہائی سخت قرار دیا اور کہا ہے کہ اس کا استعمال اختلاف رائے کو مزید روکنے کے لیے کیا جائے گا۔پیپلز پارٹی نے پیکا قانون میں ترامیم کو عوام کو خاموش کرانے کی حکومتی سازش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پیکا قانون کے تحت عام لوگوں کی آواز کو دبانا غیر جمہوری عمل اور عام شہری کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ حکومت عام شہری کی آواز دبانے کے لیے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو آمریت میں بھی نہیں ہوا۔وفاقی حکومت ڈکٹیشن کے تحت ایسی قانون سازی نہ کرے جس کا کل وہ خود شکار بنیں، حکومت الیکشن ایکٹ اور پیکا قانون میں ترامیم کا فیصلہ فوری طور پر واپس لے۔پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے حکومتی آرڈیننس پر ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ’ یہ حکومت جو بھی قوانین بنا رہی ہے کہنے کو تو میڈیا اور اپوزیشن کی آواز بند کرنے کے لیے ہے مگر یہ قوانین عمران اینڈ کمپنی کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں۔
سائبر قوانین کے ماہرین کی رائے کیا ہے؟
سماجی کارکن اور سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے قوانین پر گہری نظر رکھنے والی ڈیجیٹل فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے جب یہ پیکا کا قانون بنایا تھا تو انھیں بہت سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ ان کے خلاف استعمال ہو گا مگر ان کو بات سمجھ نہیں آئی اور بعد میں پھر ان کے کارکنان اس متنازعہ قانون کا نشانہ بنے۔واضح رہے کہ گذشتہ دور حکومت میں اگست 2016 میں قومی اسمبلی سے ایک بل پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ 2016 پاس ہوا تھا۔نگہت داد کے مطابق ’اب پاکستان تحریک انصاف والے حکومت میں ہیں اور انھیں ابھی یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوں گے تو پھر یہی ترامیم ان کے لیے درد سر بن جائیں گی۔وہ کہتی ہیں کہ یہ اتنا ڈریکونین لا یعنی کالا قانون ہے کہ گذشتہ پانچ چھ برس میں اس قانون کا غلط استعمال ہی نظر آیا ہے۔ اب اس قانون میں مزید ترامیم متعارف کروا کر اسے مزید سخت کر دیا ہے۔ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی صدف خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ایک ایسا قانون ہے جس کا براہ راست تعلق آئینی اور انسانی حقوق سے ہے، جس کا اطلاق سیاسی گفتگو اور تنقید پر بھی ہوتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم باقاعدہ پارلیمانی طریقہ کار ہی سے ہونی چاہیے تھی اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یہ ترمیم کرنا، جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق ’تمام ترامیم کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ ملک میں اظہار رائے کے آزادی پر گھیرا مزید تنگ کیا جا سکے۔نگہت داد کے مطابق عدالتوں نے جب یہ فیصلے دیے کہ اس قانون کی سیکشن 20 جو ہتک عزت سے متعلق ہے میں صرف متعلقہ شخص ہی مدعی بن سکتا ہے، اس میں ادارے مدعی نہیں بن سکتے تو پھر اس کے بعد ایسی ترامیم کے ذریعے شخص کی تعریف ہی تبدیل کر دی گئی اور اب اس میں اداروں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ان کے مطابق پاکستان میں اس حوالے سے پہلے ہی بے تحاشا قوانین موجود ہیں پھر ایسی ترامیم لانا آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔صدف خان کے مطابق اس ترمیم کو اس تناظرمیں دیکھنا لازمی ہے کہ پیکا کے جس سیکشن 20 میں بنیادی ترمیم کی جا رہی ہے، اس کا اطلاق ٹی وی کی نشریات پر نہیں ہوتا ہے۔ان کے مطابق ’گذشتہ چند برسوں میں ہم نے دیکھا کہ ٹی وی اور دیگر مین سٹریم میڈیا پر بڑھتتے ہوئے دباؤ کے سبب کئی صحافیوں نے انٹرینٹ کو ایک ’آلٹرنیٹ میڈیم‘ (متبادل ذریعے) کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کئی ایسی خبریں نشر کیں جو ٹی وی پر نہیں ہو سکتی تھیں۔صدف خان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ بھی آیا کہ اس قانون کے تحت صرف انفرادی شہری ہی قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں۔ کئی خبریں ایسی ہوتی ہیں جو شروع میں سورسز کے ذریعے حاصل اور نشر کی جاتی ہیں۔ان کے مطابق ماضی میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ خبر کو شروع میں حکومت اور حکوتی نمائندوں نے جھوٹا اور غلط قرار دیا مگر بعد میں وہ خبر درست ثابت ہوئی۔اس ترمیم سے بنیادی طور پر اس طرح کی تمام خبروں اور تجزیوں کو پیش کرنے میں مشکل درپیش ہو گی اور ملک میں آزاد صحافت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔صدف خان کے مطابق جب پاکستان مسلم لیگ ن پیکا کا قانون منظور کرنے جا رہی تھی تب حزب اختلاف میں پی ٹی آئی بھی اس کے مخالف تھی۔ ان کے مطابق ’اب پی ٹی آئی بھی قانون میں تبدیلی کر کے وہی غلطی دہرا رہی ہے۔عدالت سے پیکا کے تحت متعدد مقدمات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی ثاقب بشیر نے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نو فروری کو یہ کہا تھا کہ ’ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں۔ ان کے مطابق آج گیارہ دن بعد حکومت نے واقعی ثابت کردیا ’قدغن ہی قدغن‘ ہے۔قانون ماہر ریما عمر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان نے ہتک عزت سے متعلق اپنے فوجداری قوانین مزید ظالمانہ کر دیے ہیں، جن کے تحت ’نیچرل پرسن‘ سے تعریف کو بڑھا کر ’آل پرسنز‘ تک وسیع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ سزا بڑھا کر پانچ سال، اسے قابل دست درازی اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا ہے۔ان کے مطابق اب اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص مدعی بن سکتا ہے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔
