سینئر صحافی،کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے پیکا ایکٹ کی بنیادیں ڈالے جانے کے حوالے سے اہم انکشافات کئے ہیں۔۔دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ جب ڈان لیکس آئیں تو جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم ہاؤس کی سوشل میڈیا ٹیم کے درمیان لڑائی عروج پر پہنچ گئی۔ سوشل میڈیا نیا محاذ بن چکا تھا۔ اس جنگ میں نوجوان ریکروٹ کیے جارہے تھے جنہیں پیسے مل رہے تھے۔دوسری جانب عمران خان اور عسکری قیادت کی سوشل میڈیا ٹیم نے وزیراعظم ہاؤس کو ٹارگٹ کیا اور وزیراعظم ہاؤس کے سوشل میڈیا سیل نے جوابی حملہ کیا ۔ یوں سوشل میڈیا پر جنگ لڑی جا رہی تھی۔ اس موقع پر یہ سوچا گیا کہ سوشل میڈیا پر حکومت‘ مریم نواز اور نواز شریف کے خلاف جو کمپین چل رہی ہے اس کا حل سوشل میڈیا ٹیموں کی علاوہ قانون سازی بھی ہے۔ یوں پہلی دفعہ ایف آئی اے کو سائبر لاز کے تحت اختیارات دینے کا فیصلہ ہوا اور پھر پیکا قانون کا ڈرافٹ تیار کیا گیا۔ اس قانون کے تحت جیل اور جرمانے کی سزائیں رکھی گئیں۔ یہ قانون پہلی دفعہ آ رہا تھا جس نے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا تھا‘ عمران خان کی جماعت نے احتجاج شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قوانین ان کے پارٹی ورکرز کو نشانہ بنانے کیلئے لائے جا رہے ہیں۔ مریم نواز اس معاملے میں یکسو تھیں کہ سوشل میڈیا پر جو حکومت اور ان کے خاندان کے بارے لکھا اور بولا جارہا ہے اس کا حل یہی ہے کہ ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ یوں یہ ڈرافٹ بل کابینہ سے منظور کرا کے پارلیمنٹ بھیجا گیا ‘وہاں جس آئی ٹی کمیٹی نے اس کی منظوری دی اس کے چیئرمین کیپٹن (ر) صفدر تھے۔ یوں اس بل کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا جو اَب نئے بل کے ساتھ کیا گیا۔ میڈیا ہاؤسز‘ سول سوسائٹی اور اپوزیشن شور کرتے رہ گئے کہ اس پر نظر ثانی کریں‘ عدالتی نظام کو بہتر بنا کر ہتکِ عزت کے تحت عدالتوں میں جلدی فیصلے کرائیں‘ دنیا بھر کے دیگر ملکوں میں ایسے قوانین نہیں ہیں تو پاکستان میں کیوں؟ اس اقدام کو آزادیٔ اظہارِ رائے پر حملہ قرار دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پی ٹی آئی نے دباؤ بڑھایا تاکہ یہ قانون پاس نہ ہو سکے۔ شام کو میڈیا اور ٹی وی شوز پر بھی اس قانون کے خلاف پروگرام ہونا شروع ہو گئے۔ احتجاج بڑھتا گیا لیکن حکومت نے فیصلہ کیا ہوا تھا کہ وہ اس ایشو پر لچک نہیں دکھائے گی اور یہ قانون بن کر رہے گا۔ بالآخر تمام مخالفت کے باوجود قانون بن گیا۔