media ki barbaadi ab bhugto

پہلے میڈیا، اب فوج، ”خان“ چاہتا کیا ہے۔۔۔؟

تحریر:ناصر جمال

اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے

اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا

بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں

دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا

بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص

جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا، بیٹھ گیا

(تہذیب حافی)

آخر کیا وجہ ہے کہ عمران خان اور اس کے حواری، ریاست کے تمام ستونوں اور اداروں کے درپے ہیں۔ پورا ملک غلط ہے۔ یہ مٹھی بھر گروہ ٹھیک ہے۔ اگر یہ اقتدار میں ہوں تو ریاست، ریاست مدینہ ہے۔ یہ حکومت سے باہر ہوں تو، حکومت امپورٹیڈ ہے۔ ان کو نکالنے والے غدار ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والے لفافے ہیں۔ یہ اسلام کا استعمال کریں، سب جائز ہے۔ یہ رمضان میں ڈانس کریں، حلال ہے۔ کوئی ان سے سوال پوچھے تو ،یہ سب ان پر مل کر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ کئی سالوں سے ’’آلِ یوتھ‘‘ اور ان کے ’’ربیوں‘‘ نے پوری قوم کو گریباں سے پکڑا ہوا تھا۔ ایک فوج بچی تھی۔ اس کی دستار اور سپہ سالار کی داڑھی، آج ان کے ہاتھ میں ہے۔ پہلے پورے ملک میں کتا، کتا، کروایا۔ اب دھمکی دے رہے ہیں کہ ’’جس نے غلطی کی ہے۔ وہ اسے سُدھار لے۔ ظاہر ہے۔ وگرنہ، سوشل میڈیا کے ذریعے، مزید دُرگت بنائوں گا۔ یہ واضح ترین پیغام، ریاست کے ستونوں اور اداروں کے لئے۔

 ہم میڈیا والے، قطعاً ریاست کے ستون نہیں ہیں۔ اگر کسی کو خوش یا غلط فہمی ہے تو ہوتی رہے۔ ہمیں تو قطعاً نہیں ہے۔ اسی لئے کی دہائیاں گزر گئیں۔ ہمارے ساتھ ’’باندر کلہ‘‘ کھیلا جارہا ہے۔ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کبھی مالکان تو کبھی حکومت کبھی ادارے تو کبھی ہمارے (لیڈر) ہمیں جب دل چاہتا ہے۔ چُونا لگا جاتے ہیں۔ بدترین کردار کشی اور عملی اقدامات کے بعد بھی  عامل صحافی’’ڈٹ‘‘ کر کھڑا ہے۔

اب تو ’’اہل یوتھ کے خمینی‘‘ نے بنی گالہ میں ’’کرپٹ میڈیا‘‘ کے سامنے پریس کانفرنس کی۔ پسند کے چار سوال لئے، جنہیں صحافی زبان میں ’’پلانٹیڈ‘‘ سوال کہتے ہیں۔ جیسے ہی” نیک و کار“ فرح گوگی کا سوال ہوا۔ کپتان بھاگ گیا۔ یہ حوصلہ ہے موصوف کا  اور دھمکیاں دے رہا ہے کہ ریاست کو بھی دیکھ لے گا۔ ہمت ہے تو میڈیا کے ذریعے قوم کا سامنا کرے۔

ابھی تو نئی حکومت کو آئے دس دن نہیں ہوئے۔ شہباز گل فرماتے ہیں کہ مریم اورنگزیب بدتمیزی کرتی ہے۔ ایک نہتی لڑکی سے، اتنی لمبی زبان والا ڈر گیا ہے۔ خاتون کو تو وزیر بنے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔ ویسےکیا دن آگئے ہیں۔ ابھی تو صرف گھڑی، انگوٹھی، گاڑی، ہار، پستول سمیت چند چھوٹی، چھوٹی چیزیں سامنے آئی ہیں۔ تو پھولتی سانس کے ساتھ، اعتراف اور میری گھڑی، میری مرضی کی گھُٹی گھُٹی آوازیں آرہی ہیں۔ جس روز یہ میگا اسکینڈلز میں دھر لئے گئے تو سب ’’راگ درباری‘‘ گارہے ہونگے۔اطلاعات ہیں کہ فواد چوہدری، چائنا ایکسپو کی جس عمارت میں بیٹھتے تھے۔ وہاں انہوں نے 40کروڑ روپے خرچ کروادیئے۔ جبکہ یہ عمارت چینی حکومت نے  ابھی تک ،ھمیں باقاعدہ ٹرانسفر ہی نہیں کی۔اس کی گونج وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں بھی متعدد بار سُنی گئی۔ یہ رقم ریگولائز ہونا باقی ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات، سنا ہے گردن، گردن تک اس میں دھنسی ہوئی ہے۔

 عمر ایوب، حماد اظہر کی ایک سے ایک داستان ھے۔ وزارت پانی و بجلی اور ڈسکوز کے اندر ہر طرف سے برہنہ ہیں۔ لیسکو کی اندھیری نگری، تو ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔ ایزی گیس کمپنی اسکینڈل، ایل این جی کی بجائے مہنگے فیول پر بجلی کی پیداوار ، کیا کہنے۔ اگر نئی حکومت بد انتظامی اور بد عنوانی سامنے لانا چاہے تو ہزار ہیں۔ مصلحت اختیارکرے تو نہ اس ملک میں کبھی آٹا، گندم، چینی۔ ایل۔ این۔ جی، پٹرولیم بحران، کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ پھر مہمنڈ ڈیم سے لیکر، اضافی ایل۔ این۔ جی تک پر کنٹریکٹ شفاف ہے۔ پبلک سیکٹر کمپنیوں کے بورڈز میں جو لوٹ مار لگی ہوئی ہے۔ وہ اُن کا حق ہے۔ کمپنیاں ڈوب نہیں رہیں، تیر رہی ہیں۔ پھر چیئرمین نادرا، طارق ملک کی تقرری بھی ’’عین میرٹ‘‘ پر ہے۔

قارئین۔۔بات دوسری طرف جانکلی ہے۔ واپس موضوع کی طرف آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ابھی ’’عارضی سیز فائر‘‘ ہے۔ اس کی وجہ خوف ہے۔ ریاست کے اداروں کے خلاف ہذیان بکنے والوں کی تھوڑی سی گوشمالی ہوئی ہے۔ تو خاموشی ہے۔ وہ پھر سے اپنی صفیں منظم کر رہے ہیں۔پروپیگنڈے کے زہریلے تیر پھر سے تیار کیے جا رہے ہیں۔

دوست کہتے ہیں کہ سعد اللہ شاہ نے یہ شعر

پانی بھرتے ہیں تیرے سامنے جھوٹوں کے امام

ناز کرتا ہے ترے کشف و کمالات یہ جھوٹ

عمران خان، فواد چوہدری، شہباز گل، پی۔ٹی۔ آئی سوشل میڈیا، ہارون الرشید، اوریاں جان وغیرہ کے لئے لکھا ہے۔

 میں نہیں مانتا۔ کیونکہ ، یہ شعر ان لوگوں کے حوالے سے ابھی بھی کافی نرم ہے۔

میرا ماننا ہے کہ یہ لوگ، سازش اور مداخلت کی آڑ میں اس ملک میں فساد برپا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اس ریاست اور ملک کو اپنی انا اور ذات کی تسکین کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ ہیں تو سب کچھ ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر سب کچھ تباہ کردو۔ پارلیمنٹ،جلسے، لانگ مارچ، دھرنے ساری رات چل سکتے ہیں۔ یہ تمام رات محلاتی سازشیں کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ رات کو نہیں کھل سکتی۔ امریکی شرٹ اور جوگرز کے ساتھ، امریکی سازش پر بات ہوسکتی ہے۔ عدالت، غیر آئینی اقدامات روکنے کے لئے رات کو نہیں کُھل سکتی۔ اگر سپریم کورٹ کھلی تھی تو مقابلہ کرتے، سرکاری گاڑی پر بنی گالہ فرار نہ ہوتے۔

ہم کسی حکومت کے نہ ذاتی مخالف ہیں اور نہ یہ حمایتی ہیں۔ غلط کاموں پر تنقید کرتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر جس روز لگایا تھا۔ ڈٹ کر مخالفت کی۔ اس روز بھی فواد چوہدری اینڈ کمپنی ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ آج بھی ان کے حواری، دشنام طرازی کرتے ہیں۔

وقت نے ثابت کیا۔ کس کا فیصلہ غلط تھا۔ عمران خان نے کچھ گرام ’’سکون‘‘ کے لئے خود کو برباد کیا۔ عمران خان اور حکومت کو تو واسکٹ اور پینٹ کوٹ والی کچن کیبنٹ نے برباد کیا۔ اگر غلط بیورو کریسی لگائی، غلط غیر منتخب وزراء کا انتخاب کیا، تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ریکارڈ کابینہ کے اجلاس ہوئے۔ آوٹ، پُٹ کیا ہے۔ عثمان بزدار ، محمود خان، اعظم خان، شہزاد اکبر کو کیا ہم نے لگایا تھا۔ زلفی بخاری اورشہباز گل کو کیا ہم نے امپورٹ کیا تھا۔ رزاق دائود، ندیم بابر، حفیظ شیخ، شوکت ترین، رضا باقر کیا ہماری تخلیق ہیں۔ حتیٰ کہ جنرل باجوہ کو توسیع کیا ہم نے دی تھی۔ جس روز پوری پارلیمنٹ انھیں قطار در قطار ووٹ ڈال رہی تھی۔ اُس روز آپ نے اور آپ کے نابغہ روزگار وزیروں، مشیروں نے کیوں نہیں سوچا کہ اس کے آگے چل کے، کیا اثرات ہونگے۔ اپوزیشن نے اس قسط میں اپنے لئے، بند دروازے کھول لئے۔ یہ اُن کا حق تھا۔ آپ کا ’’سیاسی وژن ‘‘ کیا گھاس چرنے گیا تھا۔ جب میاں نواز شریف لندن گئے تو کیا، آپ سوئے ہوئے تھے۔ پاکستان کے بچے، بچے کو پتاہے۔ اگر نہیں پتا تو آپ کو نہیں پتا۔ اگر آپ اتنے ہی سچے ہیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد، آپ سپریم کورٹ کیوں نہیں گئے۔ اب، آپ، باتیں ، بڑی، بڑی کرتے ہیں۔ جب کہ نام نہاد سفید دامن سیاہ چیھنٹوں سے داغدار ہے

قارئین۔۔حالیہ دنوں میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں۔ اُن میں بڑی جان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انگلی پکڑ کر ’’یوتھیوں کے امام ‘‘ کو چلایا ہے۔ پوری دنیا میں اُس کے لئے راہ ہموار کی۔ اُس کو بنی بنائی بالز دیں۔ اس کو بڑی مشکل سے اعتماد کا ووٹ دلوایا۔باخبر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے اپنے پائوں خود کاٹے، عثمان بزدار، محمود خان، اعظم خان، فرح گوگی جیسے غیر منتخب کردار، افسران کے عہدوں کا بکنا، ممبران پارلیمنٹ کی بے توقیری، اپنے ہی ممبران اسمبلی پر عدم اعتماد، اُن کی فاش غلطیاں ہیں۔جتنی بڑی، یکطرفہ سپورٹ اسٹیبلشمنٹ سے اس حکومت کو ملی، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہ حکومت کسی بیرونی یااندرونی نہیں، اپنی سازش اور بوجھ کے نیچے آکر مری ہے۔

تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے لیکر آج دن تک اس نے آئین، قانون، ریاست کو جس طرح سے مذاق بنایا ہے۔۔ اس کے بعد، باقی کچھ نہیں بچا۔ اس کو لانے والے اور غیر جانبداری سے ووٹ دینے والے، سب شرمندہ ہیں۔ ایسی جماعتیں، لوگ اور حواریوں کو کوئی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ ’’افورڈ‘‘ ہی نہیں کرسکتی۔ بڑے، بڑے آئینی عہدوں پر چھوٹے، چھوٹے بچے بٹھا دیئے ہیں۔ جو ہر چیز برباد کرنے پر تلے ہیں۔کوئی کہتا ہے دانت میں درد ہے حلف نہیں لوں گا۔کوئی سروسز اسپتال داخل ہو جاتا ہے۔کوئی عدم اعتماد کی تحریک خود ہی مسترد کر دیتا ہے۔

 اب یہ میڈیا کے بعد افواج پاکستان کو ڈرانے چلے ہیں۔ یہ پانی کے اُبال کو طوفان سمجھ رہے ہیں۔ ان کے اس بچگانہ عمل میں کچھ ریٹائرڈ جنرل اور ڈسمس افسر بھی شامل ہیں۔ جو اپنی محرومیوں کا بدلہ، ریاست، ملک، ادارے اور عوام سے لینا چاہتے ہیں۔ اور امریکا و یورپ اور فتح کرنے چلے ہیں۔راستہ صرف ایک ہی ہے کہ ’’آپ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے۔ مہذب رویوں کے ساتھ سیاست کریں اور تبدیلی لائیں۔گالم گلوچ، بد تہذیبی، غیر شائستگی ، دھمکیوں سے کچھ نہیں ہونے والا، جو عمران خان چاہتا ہے۔ وہ اب کبھی نہیں ہوگا۔بہر حال!!! اس بات پر بہت سوں کو غُور کرنا چاہئے کہ اگر کچھ لوگ باز نہیں آئیں گے تو پھر سب اندر جائیں گے۔(ناصر جمال)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں