peca qawaneen sahafat par hamla

پیکا قوانین، صحافت پر حملہ

تحریر: اختر روہیلہ

کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) نے پیکا (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) کے تحت 150 صحافیوں، بشمول آر آئی یو جے کے جنرل سیکرٹری آصف بشیر چوہدری، کے خلاف مقدمات کو آزادیٔ صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے ان کی شدید مذمت کی ہے۔

 کے یو جے کے صدر طاہر حسن خان، جنرل سیکرٹری سردار لیاقت، اور مجلس عاملہ کے دیگر ارکان نے اپنے بیان میں کہا کہ بغیر کسی نوٹس اور تحقیقات کے ایف آئی اے کی جانب سے مقدمات کا اندراج صحافیوں کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔

پیکا قوانین اور ان کے اثرات

پیکا قوانین، 2016 میں نافذ کیے گئے، بنیادی طور پر سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن ان کا استعمال اکثر آزادیٔ اظہار کو دبانے اور تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف ہوتا ہے۔

یہ قوانین:

  1. بغیر نوٹس کارروائی کی اجازت دیتے ہیں، جو قانونی تقاضوں اور شفافیت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
  2. صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرتے ہیں، جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-اے کے تحت فراہم کردہ حقوق سے متصادم ہے۔
  3. انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں، خاص طور پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ (آرٹیکل 19) اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آرٹیکل 19 اور 21) سے۔

 عالمی قوانین اور صحافت کی آزادی

بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے تحت، آزادیٔ اظہار اور صحافت کی آزادی کو بنیادی حقوق تسلیم کیا گیا ہے۔

پیکا جیسے عالمی قوانین درج ذیل معاہدوں سے متصادم ہیں:

  1. اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (UDHR): آرٹیکل 19 کے تحت ہر فرد کو رائے رکھنے اور آزادانہ طور پر اظہار کا حق حاصل ہے۔
  2. سول اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR): پاکستان اس معاہدے کا دستخط کنندہ ہے اور اس کے آرٹیکل 19 کے تحت پابند ہے کہ آزادیٔ اظہار کو غیر ضروری قوانین کے ذریعے محدود نہ کیا جائے۔
  3. یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق (ECHR): آرٹیکل 10 کے تحت صحافت اور اظہار کی آزادی کو تحفظ حاصل ہے، جو ان قوانین کے خلاف عالمی قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

 عالمی عدالتوں میں کیس دائر کرنے کے امکانات

 پیکا قوانین کی انسانی حقوق کے معاہدوں کے خلاف ورزی پر عالمی عدالتوں میں مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے :

  1. اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC): انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر شکایات کے لیے موثر فورم۔
  2. بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ):

 پیکا جیسے قوانین عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ثابت ہیں جن پر مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے ۔

  1. یورپی کورٹ برائے انسانی حقوق (ECHR):
  2. ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ: ان جیسے ادارے نہ صرف قانونی مدد فراہم کر سکتے ہیں بلکہ ان خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

مطالبات اور اگلے اقدامات

 کے یو جے نے مطالبہ کیا کہ آصف بشیر چوہدری سمیت تمام صحافیوں کے خلاف مقدمات کو فوری واپس لیا جائے اور میڈیا ورکرز کے معاشی مسائل حل کیے جائیں ۔

 بیان میں کہا گیا کہ صحافیوں کو جھوٹے مقدمات کے ذریعے ہراساں کرنے کے بجائے جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

پیکا قوانین کے ذریعے صحافیوں کے خلاف کارروائی نہ صرف پاکستان کے آئین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان قوانین کے خلاف قانونی چارہ جوئی عالمی عدالتوں میں کی جا سکتی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آزادیٔ صحافت کی حفاظت نہ صرف صحافیوں بلکہ جمہوری معاشرے کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔(اخترروہیلہ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں