خصوصی رپورٹ۔۔
اردو نیوز سے وابستہ صحافی وحید مراد کو اسلام آباد میں ان کے گھر سے اٹھایا گیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے ان کے خلاف پیکا کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے بلوچ قوم پرست رہنما اختر مینگل کی سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس پر بیان کو ری ٹویٹ کیا ہے۔
وحید مراد کی ساس، عابدہ نواز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس کے مطابق، مراد کو ان کے گھر سے ’نامعلوم اہلکاروں نے زبردستی غائب‘ کر دیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ عابدہ زبردستی غائب کرنے کی عینی شاہد ہیں اور خود اغوا کاروں کے ہاتھوں بدسلوکی کا شکار ہوئیں۔ وحید مراد اب ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔
اس واقعے سے ایک ہفتہ قبل کراچی میں یو ٹیوب چینل رفتار کے مالک فرحان ملک کو ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ریاست مخالف ویڈیوز پوسٹ کرنے کی مہم چلانے، جعلی خبروں اور عوامی اشتعال انگیزی کے ایجنڈے پر مشتمل ریاست مخالف مواد سے متعلق پوسٹس اور ویڈیوز تیار کرنے اور پھیلانے میں ملوث ہیں۔
عدالت نے فرحان ملک کو جیل کسٹڈی میں دینے کا حکم جاری کیا تاہم ایف آئی اے نے انھیں ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا اور اس بار ان پر غیر قانونی کال سینٹر چلانے کا الزام عائد کیا۔
ان دونوں واقعات سے قبل اسلام آباد میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے جعفر ایکسپریس حملے کے بارے میں مبینہ طور پر جعلی خبریں پھیلانے پر صحافی احمد نورانی، وکیل شفیق احمد اور سوشل میڈیا کارکن آئنہ درخانی سمیت تین افراد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ان کا شروع سے یہ خیال تھا کہ یہ ایکٹ ’نہ صرف صحافیوں بلکہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے بھی ہے، جس کو بھی چاہیں گے اسے ٹارگٹ کر لیں گے۔‘
مظہر عباس نے صحافتی تنظیموں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ’ایسا لگا رہا ہے جیسے ہم نے اس قانون کو قبول کر لیا ہے، اس سے بڑا صحافت کا المیہ نہیں ہو سکتا۔‘
کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر ارشاد عارف بھی حالیہ واقعات کو لے کر تشویں میں ہیں۔
ان کے مطابق ’ہمیں یہ ہی خوف تھا کہ پیکا ایکٹ صحافیوں کے خلاف استعمال ہو گا کیونکہ اس کے مقاصد پہلے دن سے واضح تھے۔‘
سنہ 2016 میں بغیر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے منظور ہونے والا یہ قانون، اب شہباز شریف کی حکومت کے دور میں بھی متنازعہ ترامیم کے ساتھ موجود ہے۔
ارشاد عارف کے مطابق ’حکومت کے وعدوں کے باوجود، پیکا ایکٹ صحافیوں، مخالف آوازوں اور آزادی اظہار کو دبانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے حالانکہ شہباز شریف نے بطور اپوزیشن رہنما یہ ایکٹ ختم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔
پیکا قانون کے خلاف مقدمے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور صحافی حامد میر کے وکیل عمران شفیق نے بی بی سی کے اعظم خان کو اپنے تحفظات سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’پیکا ترمیمی بل 2025 بنیادی انسانی حقوق اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ متنازع ترامیم کے ذریعے حق آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت، میڈیا کی آزادی اور بالخصوص عوام تک معلومات تک رسائی کے حق کو ناممکن العمل بنایا گیا ہے۔ان کے مطابق قانون میں ’ایسی بے جا ترامیم کی گئیں ہیں کہ جن کے باعث حکومت کسی بھی خبر کو جھوٹا قرار دے کر صحافیوں کو ناقابل ضمانت جرم کے ارتکاب کے الزام میں فوری طور پر گرفتار کر سکتی ہے۔وکیل عمران شفیق کے مطابق ’قانون میں کوئی ایسا ضابطہ متعین نہیں کیا گیا جس کی رو سے اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی کونسی خبر سچی ہے یا جھوٹی؟ محض انتظامیہ کی صوابدید اور اختیارات ہی کسی خبر یا انفارمیشن کے سچے یا جھوٹے ہونے کا تعین کریں گے۔وکیل عمران شفیق اعتراض اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پیکا قانون کے تحت بنائے جانے والے تینوں ادارے یعنی سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، کونسل اور ٹریبیونل مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہوں گے، اور یہ امر یقینی ہے کہ ایسے جانبدار اور حکومت کے ماتحت قائم کسی اتھارٹی، کونسل یا ٹریبیونل سے انصاف اور شفافیت کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ان کے مطابق اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ بغیر کسی نوٹس اور بغیر کسی سماعت کے کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کسی چینل یا اکاؤنٹ کو یک طرفہ کارروائی کے ذریعے بلاک کر سکے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔