peca qanoon sahafi tanzeemo ko manzam hona hoga

پیکا،صحافی تنظیموں کو منظم ہونا ہوگا

تحریر: وارث رضا۔۔

جب سماج غیر سنجیدہ اور غیر منطقی بنیاد پر تعمیر ہونے لگیں تو اس سماج کی آخری منزل غیر سیاسی اور غیر جمہوری سماجی سوچ پر مرتکز ہوکر بے ابتری اور غیر منصفانہ سماج کی بربادی پر اپنا اختتام کرتی ہے۔ ہمارے سماج میں اکثر غیر جمہوری رویوں کا ذکر بہت فراخدلی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور ملک کے سیاسی فیصلے جب آمرانہ انداز سے ہونے لگتے ہیں تو جمہوریت کو تاراج کرنے کا واویلا دیکھنے کو ملتا ہے۔کسی حد تک جمہوری تقاضوں کی مانگ اور جمہوری سیاسی عمل کی خواہش یقینا آمرانہ سوچ کے مقابل ایک خوش آیند اور ترقی پسند سوچ ہے، جس کی کمزور سے کمزور شکل بھی آمرانہ طرز فکر سے بہت بہتر ہے اور یہ سوچ ایک جمہوری سماج کے قیام کے لیے نیک شگون بھی ہے۔

مگرکیا ہم جمہوریت کی تفھیم اپنے خیالات کی بنیاد پر تعمیرکررہے ہیں یا کریں گے یا جمہوری رویوں کی اصل روح اور عمل میں اسے دیکھیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو صدیوں سے مختلف اشکال میں حل کیے جانے کی کوشش میں اب تک مکمل طور سے کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔جمہوریت کی تفھیم کے سلسلے میں اس گھمبیر صورتحال کو سمجھنے اور اس میں نظر آنے والی کمزوریوں کی لاتعداد وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں مگر سردست پاکستان کے موجودہ سیاسی انتشار میں جمہوریت کے متعلق واضح طور پر تین وجوہات ابھرکر ہمارے سامنے ہیں۔ پہلی جمہوریت کی تفھیم سے لاعلمی دوسری مکمل جمہوری و عملی انسانی رویہ اور تیسری کہ کیا دنیا میں کہیں بھی جمہوریت ریاستی امور میں کوئی حیثیت رکھتی ہے؟

 سب سے پہلے ہمیں اس ابہام سے نکلنا ہوگا کہ دنیا میں سرمایہ دارانہ معیشت کے ہوتے ہوئے مکمل جمہوری و انسانی حقوق ایک عام فرد کو مل سکتے ہیں؟ یا کہ یہ جمہوری حقوق جدید ترین ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو میسر ہیں یا مکمل طور سے دنیا کی کوئی ریاست جمہوری تقاضوں پر کھڑی ہو کر اپنے عوام کو کیا مکمل جمہوری آزادی دیے ہوئے ہے؟اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر دورکے انسان نے جبر اور استبداد کا مقابلہ کرتے ہوئے  اپنی مضبوط منڈلیاں قائم کر کے ہی کچھ حقوق حاصل کیے ہیں جن کو بہت خوبصورتی سے سرمایہ دارانہ جبر نے جمہوریت کے کپڑے پہنا کر دوسری جانب سے ریاستی قوانین کے ذریعے عوام کے حقوق سلب کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔قانون منظورکرا لیے جاتے ہیں، پھر ان قوانین کی آڑ میں قومی وحدت اور ملک کی آزادانہ حیثیت کا راگ الاپ کر غیر سیاسی افراد سے پروپیگنڈے کے ذریعے ریاستی طاقت کے ساتھ بیانیہ گھڑا جاتا ہے اور پارلیمان کو عوام کے ترجمان کے طور پر لا کر ریاستی طاقت ہر وہ کام کر لیتی ہے جس سے عام فرد کے جمہوری حقوق بہت خوبصورتی سے دبا لیے جاتے ہیں۔

یہ کام پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بہت فراخدلی کے ساتھ ہر حکمران جماعت کرتی ہے اور پھر وہی حکمران جماعت جب اپوزیشن میں تبدیل کردی جاتی ہے تو وہ اپنے غیر جمہوری اقدامات اور پاس کردہ بل بھول کر عوام کے انسانی اور جمہوری حقوق کا راگ الاپتی ہے، اسی درمیان حکمرانی کے دوران رہنے والی جماعت اپنے حمایتی پیدا کر لیتی ہے جو بعد میں اقتدار کے چھن جانے کے بعد اپوزیشن کے جمہوری اور انسانی حقوق کے راگ کا الاپ کر کے عوام کو آزادانہ اور جمہوری سوچ کے ساتھ غور و فکر سے دور کر دیتے ہیں۔

اور یوں ملک میں ایک گروہ بادی النظر میں طاقتور ریاستی گروہ کے ہاتھ مزید مضبوط کر رہا ہوتا ہے، جس کا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ ریاست کا طاقتورگروہ آنے والے حکمران ٹولے کو اقتدار میں نہ رہنے کا خوف دلا کر ہر وہ اقدام کرلیتا ہے جس کی اس طاقتور گروہ کو ضرورت ہوتی ہے اور پھر حکمران جماعتیں اور اپوزیشن کی بلند بانگ دینے میں عوام کی جمہوری اور سیاسی آزادی سلب ہو کر سماج کو غیر منطقی سیاسی گروپ میں تقسیم کر دیتے ہیں ، یہی کچھ ہمارے سماج کے ساتھ 70 دہائیوں سے ہو رہا ہے۔

آج اگر پی ٹی آئی کو ’’ پیکا کا قانون کالا‘‘ نظر آرہا ہے تو کل پی ٹی آئی کی جانب سے جب  پاکستان میڈیا اتھارٹی کا غیر جمہوری قانون لایا گیا تھا تو مسلم لیگ ن اور پی پی کو یہ قدم کالا اور غیر جمہوری لگ رہا تھا جب کہ اس وقت بھی صحافتی تنظیموں کا احتجاج صحافتی آزادی کے ماضی کے قانون پر تھا اور ملک کے صحافی یک زبان ہوکر پی ٹی آئی کے اس غیر جمہوری قانون کو روک سکے تھے۔

ہم کل کے صحافتی تناظر پر غور کریں تو صحافیوں کی مرکزی تنظیم (PFUJ) میں مختلف رائے کے باوجود یکجہتی اور قربانیوں کی ایسی مثالیں موجود ہیں جو فرد یا گروہ کے مفادات سے بالا تر تھیں، یہی صحافتی یکجہتی کی وہ درخشاں تاریخ ہے جس سے ملک کا بڑے سے بڑا آمر اور جمہوری آمر  صحافتی تنظیم (PFUJ) کی جمہوری جدوجہد اور تنظیم کے یکجہتی کے اصول سے خوف زدہ رہ کر صحافت کی مذکورہ تنظیم کی حیثیت کے پیش نظر ریاست فیصلے قانون اور ریاستی امور میں تنظیم سے مشاورت پر مجبور ہوا کرتی تھی۔

صحافتی ٹریڈ یونین کو منظم کرنے کے عمل میں یہ نکتہ قابل غور رہے کہ دنیا کا موجودہ عہد تمام ریاستوں کے وسائل کی  لوٹ مار کے سرمایہ دارانہ طرز فکر پر چلائی جارہا ہے، جس میں انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوری قدروں کے تقدس کو پامال کرنے کے تمام لوازمات کو ملک کی سلامتی و بقا کے نام پر جبری قانون کی شکل میں ڈھال کر مزدور حقوق اور ان کی جمہوری آزادی سمیت اظہار رائے کے حق کو سلب کرنا سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے نظام کی ضرورت و غایت ہے۔

کیونکہ عوام و صحافت کے اظہار رائے کے حق کو دبائے بنا سرمایہ دارانہ معیشت اپنا حجم یا ریاستی بے حسی کے مقاصد نہیں حاصل کر سکتی، لٰہذا ایسی ریاستوں کے لیے ازحد ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اظہار کی آزادی کا گلہ گھونٹ کر عوام کے شہری اور جمہوری حقوق کو پامال کریں اور سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ جاری رکھیں جس میں ’’خبر‘‘ ایسے اہم ذریعے کو عوام سے دور رکھنے کی حکمت عملی بہت اہم ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی اس اہم وجہ یا طرز فکر کو سمجھے بغیر ٹریڈ یونین کی تنظیم کاری ٹریڈ یونین کے بنیادی و نظریاتی تقاضوں کو جانے بنا نہیں کی جاسکتی۔

وقت اور حالات کے اس اہم موڑ پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ موجودہ دور سرمایہ دارانہ ریاستوں کے غیر جمہوری رویوں اور قانون سازی کی وجہ سے ریاستوں کی شکستگی کا دور ہے۔ سرمایہ دار دنیا عوام کے جمہوری و انسانی حقوق نہ دینے کی دوڑ میں عوام سے سب سے پہلے ’’ اظہارکا حق‘‘ چھیننے کے مرحلے میں جدید ٹیکنالوجی کے تحت ڈیجیٹل میڈیا کے آزادانہ اور غیر شائستہ اظہار اور میڈیا سے دراصل صحافت کی ان جمہوری حقیقتوں کو ڈسنا چاہتی ہے جن سے صحافت کے شائستہ رویے عوام میں اظہار کی آزادی و شعور کی جدوجہد کو صیقل کرسکیں۔

لٰہذا اس اہم مرحلے پر صحافتی تنظیموں کو منظم ہونے کے جدید تقاضے اپنی صفوں میں جمہوری فکر کے ذریعے ڈالنے ہوں وگرنہ نہ اظہار رہے گا اور نہ اس کی آزادی کی جدوجہد، پھر ہم صرف پاکستان کی درخشاں نظریاتی صحافتی تاریخ کے گم گشتہ صفحات ہی کھنگالتے رہیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں