peca qanoon ki do dhaari talwaaar ke sae mein sehme pakistani

پیکا قانون کی دو دھاری تلوار کے سائے میں سہمے پاکستانی۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

پاکستان میں کمپیوٹرز اور سمارٹ فونز کی سکرینوں کی ٹمٹماتی روشنی اور سوشل میڈیا فیڈز کے سکرول میں ایک خاموش جنگ لڑی جا رہی ہے۔

یہ گولیوں اور بموں کا میدان جنگ نہیں ہے بلکہ الفاظ، خیالات اور اختلاف رائے کا تصادم ہے اور ان کی روک تھام کے لیے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ایک دو دھاری تلوار بن کر ابھرا ہے۔اس قانون کا مقصد تو سائبر جرائم کی روک تھام تھا مگر حالیہ کارروائیوں سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اس کا استعمال تنقیدی آوازوں کو دبانے اور اختلاف رائے کو خاموش کروانے کے لیے ہو رہا ہے۔

فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک ہو یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس اور انسٹا گرام، ’قانون کی نظر‘ سب پر ہے۔ حال ہی میں جب راولپنڈی میں ایک شہری نے ٹک ٹاک پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں اس نے ٹریفک پولیس پر الزامات لگائے تو پولیس نے فوری طور پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ ٹریفک پولیس کا کہنا تھا کہ شہری کی ویڈیو کا مقصد عوام میں پولیس کے خلاف نفرت پھیلانا تھا۔اس سے قبل صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں جب ایک عام شہری نے رمضان کے چاند کے اعلان میں تاخیر کرنے پر علما پر تنقید کی تو اسے مذہبی حساسیت کے خلاف سمجھا گیا اور ان کے خلاف اسی قانون کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔

عام آدمی تو ایک جانب اس قانون کی گرفت سے سابق رکن اسمبلی اور صحافی بھی محفوظ نہیں رہے۔رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کو بھی پیکا ایکٹ کے تحت مقدمے کا سامنے ہے اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے پولیس پر دھاوا بولا، حکومت اور عدلیہ کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگائے اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کیں جن سے افراتفری پھیلی۔

صحافیوں کی بات کی جائے تو پہلے کراچی میں فرحان ملک اور پھر اسلام آباد میں وحید مراد کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فرحان ملک اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ وحید مراد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کی متعلقہ قائمہ کمیٹیوں اور اس کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور صدر کی منظوری سے قانون بننے والے پیکا ترمیمی بل 2025 پر نا صرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن لگانا۔ان تمام مثالوں کی روشنی میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ کیا پیکا ایک ڈیجیٹل آمریت کا پیش خیمہ بن گیا ہے؟

خیال کیا جارہا تھا کہ ایف آئی اے اس قانون کی پیروی کرے گی لیکن اس قانون کا استعمال پولیس کی جانب سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں صحافی تحریکوں، انسانی حقوق پر کتابوں کے مصنف ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’پولیس سے لے کر ایف آئی اے تک تمام ایجنسیاں کارروائی کے دائرہ کار میں آ گئی ہیں۔ کہا تو یہ گیا تھا کہ ان مقدمات میں ایف آئی اے کی جو نئی ایجنسی بن رہی تھی وہ کارروائی کرے گی لیکن یہ تو عام تھانے بھی کارروائی کر رہے ہیں، اس کا دائرہ تو بہت بڑھ گیا ہے۔پاکستان میں صحافیوں کے علاوہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی ایک بڑی کھیپ پیدا ہوئی ہے جو سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل پر کھل کر اظہار رائے کرتے ہیں، اس میں بعض اوقات پاکستان کے عسکری، سولین اور سیاسی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کی نامور کارکن نگہت داد کہتی ہیں کہ ’وہ ریاست جو ایک جمہوری ریاست کا دعویٰ کرے اور اس کی عوام اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ڈرے بالخصوص حکومتی پالیسیوں، کرپشن اور دیگر مسائل پر بات کرنے سے عوام ڈرنا شروع ہو جائے تو پھر وہ جمہوریت جمہوریت نہیں ہوتی۔اب سیلف سینسرشپ کا رجحان بھی بڑھے گا، لوگ سوچیں گے کہ کون سی ایسی بات کریں جو پیکا کی زد میں نہ آئے۔وہ کہتی ہیں ’جھوٹی خبر اور گمراہ کن خبر کی وسیع تعریف میں لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیں گے تو لوگ بات کرنے سے بھی گھبرائیں گے۔ اگر آپ ڈر کے بیٹھ گئے تو حکمرانوں کے احتساب کا عمل نہیں ہو پائے گا اور انھیں کھلی چھوٹ ہو گی۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں