peca bill fake news of fake ahtejaaja

پیکا بل،فیک نیوز اور فیک احتجاج؟؟

تحریر: محمد نواز طاہر

 خبر اور جھوٹی خبر ہمیشہ معاشرے میں زیر بحث رہی ہیں ، سرکاری درباری ،ریا کای، عیاری اور بدمعاشی میں جھوٹی خبر کو ہمیشہ اہمیت رہی ہے ، جھوٹی خبریں سب سے زیادہ جنگی دور میں ہوتی ہیں انہیں پراپیگنڈا کا نام دیا جاتا ہے جن ملکوں میں جنگ چل رہی ہوتی ہے وہ اپنے اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے خبریں جاری کرتے ہیں ، ان حالات میں آزادانہ خبریں پوری طرح فراہم کرنا ممکن نہیں ہوتا جس کی بنیادی وجہ رپورٹ کرنے والے کی ہرجنگی یا جنگ سے متاثرہ مقام پر رسائی حاصل نہ ہونا اور اپنے ملک کے مفادات کوسامنا رکھنا ہوتا ، یہی صورتحال ان جنگوں میں حمایت یا مخالفت کرنے والے ممالک کے صحافیوںکی ہوتی ہے جو جنگوں کے خاتمے کے بعد حقائق سامنے آتے ہیں ، جھوٹی خبر کو سب سے زیادہ شہرت فیک نیوز کے نام سے ملی ہے حالانکہ کچھ بھی تبدیلی نہیں مسوائے اس کے کہ اب جھوٹی یا فیک خبریں رواج پاچکی ہیں ، جسے مانا نہیں جاتا ۔

 حقیقت یہ ہے کہ فیک خبریں یا ادھوری اور من مانی خبریں شائع یا نشر کرکے ماضی میں بھی کچھ لوگ فائدہ اٹھایا کرتے تھے اب بھی ان کا دھندہ چل رہا ہے لیکن سوشل میڈیا آنے سے اب ہر خبر ہی فیک نیوز قراردی جانے لگی ہے ۔ خاص طور پر سیاسی ، ریاستی غیر ریاستی عناصر جنہیں درست خبر بھی پسند نہیں ہوتی وہ درست خبر کو بھی فیک نیوز قراردیتے ہیں ، اس طرح معاشرہ فیک نیوز کی آگ میں جھلس رہا ہے، عام آدمی فیک نیوز سے پوری آگاہ نہیں ہوتا ، فیک نیوز کی اصل تعریف یہ ہے کہ ایسی خبر جو حقائق کے برعکس ہو ، پیشہ صحافت سے وابستہ رپورٹر جھوٹی خبر پر یقین نہیں رکھتا بلکہ فیک نیوز سے نفرت کرتا ہے اور اس کی نفی کرتا ہے البتہ کچھ معاملات میں وہ درست میٹریل کو بھی تھوڑا سے ادارے کی پالیسی کے مطابق الفاظ میں ڈھال لیتا ہے جس سے اس کی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور یہ خود خبردینے والے کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے کیونکہ معاشرہ ایک ہے ، اس میں بسنے والے حکومت اور اپوزیشن میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن صحافی نے اپنےپروفیشن سے مخلص رہنا ہوتا ہے، اس میں وہ صحافی شا مل نہیں جو مخصوص مقاصد کے تحت کام کرتے ہیں ، انہیں اپنی ساکھ سے غرض نہیں ہوتی اور یہ ہردور میں رہے ہیں۔ بظاہر میڈیا کی ترقی کے نتیجے میں ترقی سے زیادہ تنزلی ہوئی جس کی بنیادی وجہ مالکان اور ان کے چہیتے مفاد پرست ملازمین ( صحافی) کے مفادات ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ صحافی جھوٹی خبر دیکر شرمندگی محسوس نہیں کرتا تو غلط ہوگاالبتہ مفاد پرست جنہیں اپنی کمیونٹی میں بھی توقیر نہیں ملتی وہ جھوٹی خبر سے فائدہ اٹھا کر اتراتے ہیں ، جھوٹی خبر ریاستی اداروں ، سیاسی ، مذہبی ،سماجی گروپوں کو بھی بھاتی اور تڑپاتی ہے لیکن سبھی اس کی حمائت اور مخالفت بھی کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ تین دہائیوں سے عروج پا رہا ہے لیکن سوشل میڈیا پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے فیک نیوز فخر اور شہرت کا سہرا بن گیاہے ۔ اس رنگ میں کچھ پروفیشنل صحافی بھی رنگے گئے ہیں جو ان اداروں کو تو درست حقائق کے ساتھ میٹیریل فراہم کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر من مانی کرتے ہیں ، سوشل میڈیا پر صرف دیکھنے ، پڑھنے اور لائیک کرنے والوں کی تعداد کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس اہمیت کو وہ ٹھٹھے لگاتے ہوئے انجوائے کرتے ہیں ان میں سے میں کچھ ایسے ساتھیوں کو بھی جانتا ہوں جو اپنے اایسے میٹریل کو لائک کرنے والوں پر لعنت بھی بھیج رہے ہوتے ہیں اور اس خبر کو پوسٹ کرنے سے پہلے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ دیکھیں میں یہ پوسٹ کرنے لگا ہوں اور اس کی اندھا دھند لائکنگ آئے گی ۔مجموعی طور پر نہ ہی لیکن بڑی حد تک ہمارا سماج جھوٹی خبر کاعادی ہوچکا ہے ، فیک نیوز کے خلاف پارلیمان نے قانون بھی منظور کرلیا ہے، جس وقت یہ قانون منظور کیا جارہا تھا اس وقت میڈیا کارکنوں کی بڑی تعداد ملک بھر میں مظاہرے کررہی تھی ، اس میں وہ کارکن بھی شامل تھے جو نہ تو فیک نیوز کا حصہ ہیں اور نہ ہی فیک نیوز پر قانونی کارروائی سے متاثر ہونے والے ہیں ۔ مظاہرین میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو مختلف ادوار میں اپنی وفاداری پر ریاست سے اندھا دھند فائدے اٹھاتے رہے ہیں اور اب بھی اٹھا رہے ہیں ، پیکا ترمیمی ایکٹ حکومت نے پیش کیا اور پارلیمان نے منظور کیا لیکن اسی حکومت کے گُن گانے والے ، اس کے ایجنڈے کو من مانے الفاظ میں بیان کرنے والی یہی لوگ مظاہروں میں شامل ہیں اور اسی حکومت سے لاکھوں روپے بھی وصول کررہے ہیں جن میں سرکاری میڈیا پر کام کرنے والے مراعات یافتہ افراد شامل ہیں البتہ سرکاری اداروں میں ریگولر کام کرنے والے اس احتجاج کا حصہ نہیں بنے ۔ کیا قانون منظور کروانے والی حکومت خود آئی واش کے لئے مظاہرے کروارہی ہے یا کسی مجبوری میں یہ قانون منظور کروا رہی ہے ؟ یہ بھی اسی طرح حقیقت کھلے گی جس طرح جنگ ختم ہونے کے بعد حقائق سامنے آتے ہیں ۔ فیک نیوز کے ساتھ ساتھ فیک ویوز سوشل میڈیا پر رونق لگائے ہوئے ہیں ، فیک تجزیے بھی اسی کا حصہ ہیں اور عام آدمی فیک ویوز ، فیک تجزیے کو بھی فیک نیوز ہی کی طرح سمجھتا ہے ۔ اب جبکہ جیسے بھی یہ قانون منظور ہوچکا ہے تو سوال یہ ہے کہ صحافیوں کا احتجاج کس کھاتے میں گیا ہے ؟ صرف حاضری لگوانے میں ؟ اس قانون پر صحافیوں کے تحفظات اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ صحافیوں نے نیوز اور فیک نیوز میں تمیز کا کوئی مسودہ کسی مشاورت کے ساتھ تیار کرکے کہیں شیئر کیا ہے ؟ ابھی تو ایسا مسودہ اگر بنا بھی ہے تووہ خود صحافیوں کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا تو پھر احتجاج بے سود جانے پر گلہ کیا کرنا ، ویسے بھی مشاورتی اجلاس زیادہ تر مخصوص افراد کی تقاریر کے لئے ہوتے ہیں ، اکیڈیمک بحث تو ہوتی نہیں ، اب بھی کچھ نہیں بگڑا ، اب بھی مشاورت ہوسکتی ہے اور قابلِ قبول مسودہ تیار کیا جاسکتا ہے جس کی منظور کےلئے حکومت اور پارلیمان پر زوردیا جاسکتا ہے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ مستقبل میں آج کے صحافی پر سوال ضرور اٹھے گا کہ اس نے نیوز اور فیک نیوز میں تمیز کا مسودہ تیار کیوں نہ کرایا اور ایسا نہ ہونے سے صحافیوں کے تحفظات محض تحفظات رہے انہیں دور نہیں کیا جاسکا ۔(محمد نوازطاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں