تحریر: محمد فاروق چوہان۔۔
فیک نیوز کا تدارک تو یقیناً ہونا چاہیے مگر اس کی آڑ میں آزاد میڈیا کا گلا گھونٹنا کسی بھی صورت درست اقدام نہیں ہے۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایسے اقدام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ حالیہ پیکا ترمیمی ایکٹ کے تحت ملک کے کئی مقامات پر مقدمات کا بننا غیر جمہوری طرز عمل ہے۔ آزادی اظہار رائے پر قدغن کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیکا ایکٹ، آئین پاکستان میں دی گئی شخصی آزادی سے متصادم ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران حد سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے لئے خود ہی مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ حکومت نے مذکورہ بل کی منظوری سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیا گیا۔ موجودہ حکومت آزاد آوازوں کو دبانے اور ریاست کے بنیادی ستونوں کو منہدم کرنے کیلئےمنظم طریقے سے کام کر رہی ہے۔ترامیم، آزاد میڈیا کو خاموش کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے مقصد سےاور 1973 آئین کو کمزور کرنے کی ایک وسیع مہم کا حصہ ہے۔ پیکا ترامیم کی طرح عدلیہ کو نشانہ بنانے والی آئینی ترمیم بھی عدلیہ یا سول سوسائٹی کے ساتھ مشاورت کے بغیر منظوری کی گئی، یہ سب کچھ آمرانہ کنٹرول کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہورہی ہے۔ حکومت کے یہ اقدامات ملک کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پیکا ترامیم 2025 اور 26ویں آئینی ترامیم دونوں کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شفاف اور جامع مشاورت کا عمل شروع کیا جائے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر دور حکومت میں وقتی مفادات کے حصول کی خاطر قانون سازی کی جاتی رہی ہے جس کا خمیازہ طویل عرصے سے قوم بھگتتی رہی ہے۔ جب تک ملک کو 1973 کے آئین کے مطابق نہیں چلا یا جائے گا اس وقت تک بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے تاکہ اصلاح احوال ممکن ہو سکے۔ 23جنوری کو قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے بل یعنی ”پیکا ایکٹ“ کی منظوری دی تھی، صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن اس کو آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہی ہیں جبکہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے،پیکا ایکٹ ترمیمی بل میں ایک طرف نئی ریگولیٹری اتھارٹی، ٹربیونل اور نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام، اختیارات اور فنکشنز کا ذکر ہے تو دوسری طرف غیر قانونی مواد اور اس کے خلاف کارروائی کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے۔ تئیس جنوری کو قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا بل یعنی، پیکا کی منظوری دی۔۔ جس کے بعد صحافتی تنظیموں اور اپوزیشن کا احتجاج جاری ہے۔ صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن اس کو کالا قانون، آزادی اظہار رائے اور میڈیا پر حملہ قرار دے رہی ہیں جبکہ حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور یوٹیوبرز کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔ اس بل کے مطابق ایسا کانٹینٹ جو نظریہ پاکستان کے خلاف ہو، ایسا مواد جو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کیلئے اشتعال دلائے، یا عوام، افراد، گروہوں، کمیونٹیز، سرکاری افسران اور اداروں کو خوف میں مبتلا کرے، ایسا مواد غیر قانونی ہے۔ عوام یا ایک سیکشن کو حکومتی یا پرائیویٹ پراپرٹیز کو نقصان پہنچانے کیلئے اشتعال دلائے، قانونی تجارت یا شہری زندگی میں خلل ڈالنا بھی ممنوع ہو گا۔ نفرت انگیز، توہین آمیز، فرقہ واریت ابھارنے اور فحاشی پر مبنی کانٹینٹ کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ بل کے مطابق اراکین پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، عدلیہ، مسلح افواج سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنا بھی قابل گرفت ہوگا۔ ریاستی اداروں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں اور دہشتگردی کی حوصلہ افزائی کرنے والا مواد بھی غیر قانونی ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی جانب سے حذف کیے جانے والے الفاظ نشر نہیں کیے جا سکیں گے۔ کالعدم تنظیموں کے سربراہان اور نمائندوں کے بیانات کسی بھی طرز پر نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہر وہ شخص جو جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلائے گا جو غلط ہوں یا فیک ہوں یا جس سے خوف وہراس پھیلے یا عوام میں افرا تفری اور انتشار پیدا ہو اس شخص کو 3سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ کیا جا سکے گا یا یہ دونوں سزائیں دی جا سکیں گی،اس بل کے تحت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے نام سے اتھارٹی قائم کی جائے گی جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا۔ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ صحافتی تنظیمیں اس بل کو ’صحافیوں کی آواز دبانے والا قانون‘ قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج ہیں۔ سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی، سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز کے بقول اس قانون کی سہولت کاری کرے گی اور صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔ یہ اتھارٹی پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی۔ اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت بھی جاری کر سکے گی۔ ٹریبونل ہو یا اتھارٹی، اس میں تمام افراد کی تعیناتی حکومت کرے گی۔ بہتر ہوتا کہ کسی پارلیمانی کمیٹی کو یہ تمام کام تفویض کیا جاتا تاکہ حکومت اور اپوزیشن ملکر اس میں شامل ہوتے۔ حکومت نے اس ترمیم میں فیک نیوزکی تشریح نہیں کی ہے جس سے اس کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کو نہ صرف اس کی ساخت اور پالیسی ہدایات جاری کر کے کنٹرول کرتی ہے بلکہ سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل اور سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل میں بھی ممبران کی تقرری کرتی ہے جس سے غیر جانبداری پر شدید تحفظات پیدا ہوتے ہیں ایسے اداروں میں تقرریوں میں پارلیمانی نگرانی اور سول سوسائٹی اور دیگرا سٹیک ہولڈرز کی رائے ضرور شامل ہونی چاہئے۔(بشکریہ جنگ)۔۔